قمر جلال آبادی کی غزلیں

ہیں کسی کو یاد کرتے ہیں  اجل کے سامنے ہیں زندگی کو یاد کرتے ہیں    ہزاروں مہ جبینوں کو دیا دل فرق اتنا ہے  کسی کو بھول جاتے ہیں کسی کو یاد کرتے ہیں    یہ کیا دستورِ الفت ہے یہ کیا رسمِ محبت ہے  کیا برباد جس نے ہم اُسی کو یاد کرتے ہیں    چلے آؤ مرے اشکوں کی جھلمل میں سما جاؤ  کہ مدت سے ستارے روشنی کو یاد کرتے ہیں    کوئی ہے جو ذرا سمجھائے دورِ نَو کے انساں کو  یہ حضرت اس زمانے میں خوشی کو یاد کرتے ہیں    ۔    ہم نشیں کیسے کہوں جذبہء اُلفت کیا ہے  خود بتائے گی محبت کہ محبت کیا ہے    شیخ کہتا ہے کہ ہے عشقِ بتاں رنگِ مجاز  گر نہیں عشق حقیقت تو حقیقت کیا ہے    آیا پروانہ، گرا شمع پہ، جل جل کے مرا  تو ابھی سوچ رہا ہے کہ محبت کیا ہے    ابھی وہ آئے تھے یا ان کا خیال آیا تھا  بول اے بیخودیِ شوق حقیقت کیا ہے    ۔    تری یادِ حسیں جب تک شریکِ غم نہیں ہوتی  ترے غم کی قسم ہے غم کی شدت کم نہیں ہوتی    برس جاتی ہے آنکھوں کی گھٹا بے اختیار اکثر  کسی کو بھول جانے سے محبت کم نہیں ہوتی    ہوس کی ہر صدا کو تو صدائے غم سمجھتا ہے  صدائے غم تو ہوتی ہے امینِ غم نہیں ہوتی    میں خود دنیا میں رہتا ہوں مگر دنیا سے کہتا ہوں  کہ دنیا غم تو دیتی ہے شریکِ غم نہیں ہوتی    ۔    یار آتا نظر نہیں آتا  درد جاتا نظر نہیں آتا    جھولی پھیلا چکے محبت میں  کوئی داتا نظر نہیں آتا    اب تو کوئی بھی کوئے الفت میں  آتا جاتا نظر نہیں آتا    اب یقیں ہو چلا کہ ہاتھ اس کا  ہاتھ آتا نظر نہیں آتا    زندگی کا سفر حسین سہی  راس آتا نظر نہیں آتا    ۔    وہ چپ تھے عرضِ عشق کی تسلیم ہو گئی  لب ہل گئے فسانے میں ترمیم ہو گئی    اُن کی نظر نے درسِ وفا تو دیا مگر  پہلے سبق میں ختم یہ تعلیم ہو گئی    زاہد کے ہاں خراب ہے مٹی شباب کی  دولت کہاں کی تھی کہاں تسلیم ہو گئی    انگور تو حرام نہ تھا اہلِ ذوق پر  میری خطا یہ ہے ذرا ترمیم ہو گئی    ۔    مرے غم پہ ان کی نظر آج بھی ہے  کسی بے خبر کو خبر آج بھی ہے    وہ آئیں گے وہ آ رہے ہیں وہ آئے  دعا میں ہماری اثر آج بھی ہے    ابھی تک ہے قائم وہ یادِ محبت  ادھر کی وہ جانیں اِدھر آج بھی ہے    یہ ترکِ محبت کا عالم تو دیکھو  کہ دل میں حسینوں کا گھر آج بھی ہے    سُنا ہے سَحر آ چکی ہے وطن میں  مگر انتظارِ سحر آج بھی ہے    ۔    رہوں خاموش تو وحشت پہ حرف آتا ہے  کروں گلہ تو محبت پہ حرف آتا ہے    جو تو نہیں تو مری بندگی کا مطلب کیا  جو میں نہیں تو عبادت پہ حرف آتا ہے    لگا نہ تیر مگر دل کو ہم نے تھام لیا  نگاہِ ناز کی عظمت پہ حرف آتا ہے    ہزار بار جہنم مجھے قبول مگر  میں کیا کروں تری رحمت پہ حرف آتا ہے    ۔    تو نے بے وجہ ستایا تو خدا یاد آیا  دل نے بھی مجھ کو رُلایا تو خدا یاد آیا    بھول کر یادِ خدا یادِ بتاں آتی تھی  جب بتوں نے بھی بھلایا تو خدا یاد آیا    چھوڑ کر راہِ حرم راہ لی میخانے کی  بند میخانے کو پایا تو خدا یاد آیا    پھنس کے دنیا میں ہوئے دور خداداری سے  جب خدا یاد نہ آیا تو خدا یاد آیا    یہ عبادت ہے کہ توہینِ عبادت ہے قمرؔ  جب کوئی یاد نہ آیا تو خدا یاد آیا    ۔۔۔۔



استاد قمر جلال آبادی کی غزلیں
۔۔۔۔۔

حضورِ ہجر میں بیٹھے ہیں کسی کو یاد کرتے ہیں
اجل کے سامنے ہیں زندگی کو یاد کرتے ہیں

ہزاروں مہ جبینوں کو دیا دل فرق اتنا ہے
کسی کو بھول جاتے ہیں کسی کو یاد کرتے ہیں

یہ کیا دستورِ الفت ہے یہ کیا رسمِ محبت ہے
کیا برباد جس نے ہم اُسی کو یاد کرتے ہیں

چلے آؤ مرے اشکوں کی جھلمل میں سما جاؤ
کہ مدت سے ستارے روشنی کو یاد کرتے ہیں

کوئی ہے جو ذرا سمجھائے دورِ نَو کے انساں کو
یہ حضرت اس زمانے میں خوشی کو یاد کرتے ہیں

۔

ہم نشیں کیسے کہوں جذبہء اُلفت کیا ہے
خود بتائے گی محبت کہ محبت کیا ہے

شیخ کہتا ہے کہ ہے عشقِ بتاں رنگِ مجاز
گر نہیں عشق حقیقت تو حقیقت کیا ہے

آیا پروانہ، گرا شمع پہ، جل جل کے مرا
تو ابھی سوچ رہا ہے کہ محبت کیا ہے

ابھی وہ آئے تھے یا ان کا خیال آیا تھا
بول اے بیخودیِ شوق حقیقت کیا ہے

۔

تری یادِ حسیں جب تک شریکِ غم نہیں ہوتی
ترے غم کی قسم ہے غم کی شدت کم نہیں ہوتی

برس جاتی ہے آنکھوں کی گھٹا بے اختیار اکثر
کسی کو بھول جانے سے محبت کم نہیں ہوتی

ہوس کی ہر صدا کو تو صدائے غم سمجھتا ہے
صدائے غم تو ہوتی ہے امینِ غم نہیں ہوتی

میں خود دنیا میں رہتا ہوں مگر دنیا سے کہتا ہوں
کہ دنیا غم تو دیتی ہے شریکِ غم نہیں ہوتی

۔

یار آتا نظر نہیں آتا
درد جاتا نظر نہیں آتا

جھولی پھیلا چکے محبت میں
کوئی داتا نظر نہیں آتا

اب تو کوئی بھی کوئے الفت میں
آتا جاتا نظر نہیں آتا

اب یقیں ہو چلا کہ ہاتھ اس کا
ہاتھ آتا نظر نہیں آتا

زندگی کا سفر حسین سہی
راس آتا نظر نہیں آتا

۔

وہ چپ تھے عرضِ عشق کی تسلیم ہو گئی
لب ہل گئے فسانے میں ترمیم ہو گئی

اُن کی نظر نے درسِ وفا تو دیا مگر
پہلے سبق میں ختم یہ تعلیم ہو گئی

زاہد کے ہاں خراب ہے مٹی شباب کی
دولت کہاں کی تھی کہاں تسلیم ہو گئی

انگور تو حرام نہ تھا اہلِ ذوق پر
میری خطا یہ ہے ذرا ترمیم ہو گئی

۔

مرے غم پہ ان کی نظر آج بھی ہے
کسی بے خبر کو خبر آج بھی ہے

وہ آئیں گے وہ آ رہے ہیں وہ آئے
دعا میں ہماری اثر آج بھی ہے

ابھی تک ہے قائم وہ یادِ محبت
ادھر کی وہ جانیں اِدھر آج بھی ہے

یہ ترکِ محبت کا عالم تو دیکھو
کہ دل میں حسینوں کا گھر آج بھی ہے

سُنا ہے سَحر آ چکی ہے وطن میں
مگر انتظارِ سحر آج بھی ہے

۔

رہوں خاموش تو وحشت پہ حرف آتا ہے
کروں گلہ تو محبت پہ حرف آتا ہے

جو تو نہیں تو مری بندگی کا مطلب کیا
جو میں نہیں تو عبادت پہ حرف آتا ہے

لگا نہ تیر مگر دل کو ہم نے تھام لیا
نگاہِ ناز کی عظمت پہ حرف آتا ہے

ہزار بار جہنم مجھے قبول مگر
میں کیا کروں تری رحمت پہ حرف آتا ہے

۔

تو نے بے وجہ ستایا تو خدا یاد آیا
دل نے بھی مجھ کو رُلایا تو خدا یاد آیا

بھول کر یادِ خدا یادِ بتاں آتی تھی
جب بتوں نے بھی بھلایا تو خدا یاد آیا

چھوڑ کر راہِ حرم راہ لی میخانے کی
بند میخانے کو پایا تو خدا یاد آیا

پھنس کے دنیا میں ہوئے دور خداداری سے
جب خدا یاد نہ آیا تو خدا یاد آیا

یہ عبادت ہے کہ توہینِ عبادت ہے قمرؔ
جب کوئی یاد نہ آیا تو خدا یاد آیا