مرتی ہوئی زمین کو بچانا پڑا مجھے ۔۔ حسن عباسی

مرتی ہوئی زمین کو بچانا پڑا مجھے ۔۔ حسن عباسی

مرتی ہوئی زمین کو بچانا پڑا مجھے
بادل کی طرح دشت میں آنا پڑا مجھے

وہ کر نہیں رہا تھا مری بات کا یقین
پھر یوں ہوا کہ مر کے دِکھانا پڑا مجھے

بھولے سے مری سَمت کوئی دیکھتا نہ تھا
چہرے پہ اِک زخم لگانا پڑا مجھے

اُس اجنبی سے ہاتھ ملانے کے واسطے
محفل میں سب سے ہاتھ ملانا پڑا مجھے

یادیں تھیں دفن ایسی کہ بعد از فروخت بھی
اُس گھر کی دیکھ بھال کو جانا پڑا مجھے

اُس بے وفا کی یاد دلاتا تھا بار بار
کل آئینے پہ ہاتھ اُٹھانا پڑا مجھے

ایسے بچھڑ کے اُس نے تو مر جانا تھا حسن
اُس کی نظر میں خود کو گِرانا پڑا مجھے


۔۔۔۔۔
حسن عباسی