حکیم ناصر کی غزلیں اور اشعار

حکیم ناصر کی غزلیں اور اردو اشعار

حکیم ناصر کی غزلیں اور اشعار
1-
جب سے تُو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے
سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے

اسکے دل پر بھی کڑی عشق میں گزری ہو گی
نام جس نے بھی محبت کا سزا رکھا ہے

پتھرو! آج میرے سر پر برستے کیوں ہو
میں نے تم کو بھی کبھی اپنا خدا رکھا ہے

اب میری دید کی دنیا بھی تماشائی ہے
تُو نے کیا مجھ کو محبت میں بنا رکھا ہے

غم نہیں گل جو کئے گھر کے ہواؤں نے چراغ
ہم نے دل کا بھی دیا ایک جلا رکھا ہے

پی جا ایام کی تلخی کو بھی ہنس کر ناصر
غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزہ رکھا ہے

2-
جب بھی جلے گی شمع تو پروانہ آئے گا
دیوانہ لے کے جان کا نذرانہ آئے گا

تجھ کو بھلا کے لوں گا میں خود سے بھی انتقام
جب میرے ہاتھ میں کوئی پیمانہ آئے گا

آسان کس قدر ہے سمجھ لو میرا پتہ
بستی کے بعد پہلا جو ویرانہ آئے گا

اس کی گلی میں سر کی بھی لازم ہے احتیاط
پتھر اٹھا کے ہاتھ میں دیوانہ آئے گا

ناصرؔ جو پتھروں سے نوازا گیا ہوں میں
مرنے کے بعد پھولوں کا نذرانہ آئے گا

3-
زندگی کو نہ بنا لیں وہ سزا میرے بعد
حوصلہ دینا انہیں میرے خدا میرے بعد

کون گھونگٹ کو اٹھائے گا ستمگر کہہ کر
اور پھر کس سے کریں گے وہ حیا میرے بعد

پھر زمانے میں محبت کی نہ پُرسش ہو گی
روئے گی سسکیاں لے لے کے وفا میرے بعد

ہاتھ اٹھاتے ہوئے ان کو نہ کوئی دیکھے گا
کس کے آنے کی کریں گے وہ دعا میرے بعد

کس قدر غم ہے انہیں مجھ سے بچھڑ جانےکا
ہو گئے وہ بھی زمانے میں جدا میرے بعد

وہ جو کہتا تھا کہ ناصرؔ کے لئے جیتا ہوں
اس کا کیا جانئے کیا حال ہوا میرے بعد

4-
اس راہِ محبت میں تو آزار ملے ہیں
پھولوں کی تمنا تھی مگر خار ملے ہیں

انمول جو انسان تھا وہ کوڑی میں بِکا ہے
دنیا میں بہت ایسے بھی بازار ملے ہیں

جس نے بھی مجھے دیکھا پتھر سےنوازا
وہ کون ہیں پھولوں کے جنہیں ہار ملے ہیں

مالک یہ دِیا آج ہواؤں سے بچانا
موسم ہے عجب آندھی کے آثار ملے ہیں

دنیا میں فقط ایک زلیخہ ہی نہیں تھی
ہر یوسفِؑ ثانی کے خریدار ملے ہیں

اب ان کے نہ ملنے کی شکایت، نہ گِلہ ہے
ہم جب بھی ملے خود سے تو بیزار ملے ہیں

ناصرؔ یہ تمنا تھی محبت سے ملیں گے
وہ جب بھی ملے برسرِ پیکار ملے ہیں

5-
آنکھوں نے حال کہہ دیا ہونٹ نہ پھر ہلا سکے
دل میں ہزار زخم تھے جو نہ انہیں دکھا سکے

گھر میں جو اک چراغ تھا تم نے اسے بجھا دیا
کوئی کبھی چراغ ہم گھر میں نہ جلا سکے

شکوہ نہیں عرض ہے، ممکن اگر ہو آپ سے
دیجے مجھ کو غم ضرور، دل جو مرا اٹھا سکے

وقت قریب آ گیا، حال عجیب ہو گیا
ایسے میں تیرا نام ہم پھر بھی نہ لب پہ لا سکے

اس نے بھلا کے آپ کو نظروں سے بھی گرا دیا
ناصرؔ خستہ حال پر کیوں نہ اسے بھلا سکے

6-
اے دوست کہیں تجھ پہ بھی الزام نہ آئے
اس میری تباہی میں ترا نام نہ آئے

یہ درد ہے ہمدم! اسی ظالم کی نشانی
دے مجھ کو دوا ایسی کہ آرام نہ آئے

کاندھے پہ اٹھائے ہیں ستم راہِ وفا کے
شکوہ مجھے تم سے ہے کہ دو گام نہ آئے

لگتا ہے کہ پھیلے گی شبِ غم کی سیاہی
آنسو مری پلکوں پہ سرِ شام نہ آئے

میں بیٹھ کے پیتا رہوں بس تیری نظر سے
ہاتھوں میں کبھی میرے کوئی جام نہ آئے

بیٹھا ہوں دِیا گھر کا جو ناصرؔ میں جلا کے
ایسا نہ ہو پھر وہ دلِ ناکام نہ آئے

7-
عشق کر کے دیکھ لی جو بے بسی دیکھی نہ تھی
اس قدر اُلجھن میں پہلے زندگی دیکھی نہ تھی

یہ تماشہ بھی عجب ہے ان کے اُٹھ جانے کے بعد
میں نے دن میں اس سے پہلے تیرگی دیکھی نہ تھی

آپ کیا آئے کہ رُخصت سب اندھیرے ہو گئے
اس قدر گھر میں کبھی بھی روشنی دیکھی نہ تھی

آپ سے آنکھیں ملی تھیں پھر نہ جانے کیا ہوا
لوگ کہتے ہیں کہ ایسی بے خودی دیکھی نہ تھی

مجھ کو رُخصت کر رہے ہیں وہ عجب انداز سے
آنکھ میں آنسو، لبوں پر یہ ہنسی دیکھی نہ تھی

کس قدر خوش ہوں میں ناصرؔ ان کو پا لینے کے بعد
ایسا لگتا ہے کبھی ایسی خوشی دیکھی نہ تھی

8-
ہائے وہ وقت جدائی کے تمہارے آنسو
گِر کے دامن پہ بنے تھے جو سِتارے آنسو

لَعل و گُوہر کے خزانے ہیں یہ سارے آنسو
کوئی آنکھوں سے چُرا لے نہ تمہارے آنسو

اُن کی آنکھوں میں جو آئیں تو ستارے آنسو
میری آنکھوں میں اگر ہوں تو بِچارے آنسو

دامن صبر بھی ہاتھوں سے مِرے چھوٹ گیا
اب تو آ پہنچے ہیں پلکوں کے کِنارے آنسو

آپ لِلہ مری فکر نہ کیجئے ہرگز
آ گئے ہیں یوں ہی بس شوق کے مارے آنسو

دو گھڑی درد نے آنکھوں میں بھی رہنے نہ دیا
ہم تو سمجھے تھے بنیں گے یہ سہارے آنسو

تُو تو کہتا تھا نہ روئیں گے کبھی تیرے لئے
آج کیوں آ گئے پلکوں کے کنارے آنسو

آج تک ہم کو قَلق ہے اسی رُسوائی کا
بہہ گئے تھے جو بچھڑنے پہ ہمارے آنسو

میرے ٹھہرے ہوئے اَشکوں کی حقیقت سمجھو
کر رہے ہیں کسی طُوفاں کے اِشارے آنسو

آج اَشکوں پہ مِرے تم کو ہنسی آتی ہے
تم تو کہتے تھے کبھی ان کو سِتارے آنسو

اس قدر غم بھی نہ دے کُچھ نہ رہے پاس مِرے
ایسا لگتا ہے کہ بہہ جائیں گے سارے آنسو

دل کے جلنے کا اگر اب بھی یہ انداز رہا
پھر تو بن جائیں گے ایک دن یہ شرارے آنسو

تم کو رِم جھِم کا نظارہ جو لگا ہے اب تک
ہم نے جلتے ہوئے آنکھوں سے گزارے آنسو

میرے ہونٹوں کو تو جُنبش بھی نہ ہو گی لیکن
شِدّتِ غم سے جو گھبرا کے پُکارے آنسو

میری فریاد سنی ہے نہ وہ دل موم ہوا
یوں ہی بہہ بہہ کے مرے آج یہ ہارے آنسو

ان کو ناصرؔ کبھی آنکھوں سے نہ گرنے دینا
میری آنکھوں میں انہیں لگتے ہیں پیارے آنسو