انتخابِ غزلیاتِ سودا از مرزا محمد رفیع سوداؔ پی ڈی ایف

Intikhab-e-Ghazliyat-e-Sauda by Mirza Rafi Sauda

سوداؔ ایک طباع اور بلا کے ذہین شاعر تھے۔ ان کی مضمون آفرینی، نازک خیالی اور جلدت طرازی کی دوسری مثال مشکل سے نظر آئے گی۔ اظہار و بیان پر انہیں ایسی قدرت حاصل تھی کہ قصیدہ ہو، غزل ہو، ہجو ہو یا دوسری اصنافِ سخن ان کی حیثیت ہر جگہ نمایاں نظر آتی ہے۔ سوداؔ کے قصائد و ہجویات پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے مگر ان کی غزلوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ اسے وہ اہمیت نہیں دی گئی جس کی وہ مسحتق تھی۔ اس کا ایک بڑا سبب تو یہ تھا کہ میرؔ سے ان کا مقابلہ کیا گیا۔ جو بات ہمارے نقاد یکسر فراموش کر گئے وہ یہ تھے کہ میرؔ کچھ اور تھے اور سوداؔ کچھ اور۔  اس کے علاہ میرؔ کے بارے میں جو چند تنقیدی اصطلاحیں مشہور ہو گئیں تھیں انہیں پر سوداؔ کو پرکھا گیا۔ نہ میرؔ کو مکمل میرؔ کی صورت میں دیکھا گیا نہ سوداؔ کو۔ 
سوداؔ کی غزل میں ان کی پوری انفرادیت اور بانکپن ہے۔ کسی شاعر کی اہمیت کا اندازہ اس کی قدرتِ بیان کے ساتھ اس کے محسوسات تجربات اور مشاہدات سے کیا جاتا ہے جس سے اس کی عظمت اور بڑائی کا پتہ چلتا ہے اس کے علاوہ اس کی اہمیت اس سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اس کے کلام میں اس کا اپنا عہد کس طرح جگہ پا سکا ہے لیکن ان چیزوں کے ساتھ جو بات اسے اپنے عہد کا نمائندہ شاعر بناتی ہے اور ہر زمانے سے اس کے رشتے کو استوار کرتی ہے وہ اس کی زبان کے امکانات ہیں۔ جہاں خیال، تجربہ، مشاہدہ اتنی وسعت اختیار کر لیتا ہے کہ وہ صرف عہدِ موجود کے احساس و جذبے تک محدود نہیں رہتا بلکہ آنے والے زمانے کا بھی استعارہ بن جاتا ہے۔ سوداؔ حسن کی رعنائیوں کا ذکر کریں یا عشق کی محرومیوں کا، زمانے کی تباہی و بربادی کا ذکر کریں یا محبوب کی بے اعتنائیوں کا ان کے یہاں ایک انفرادیت ہے۔ وہ لفظ کی تہہ داریوں اور اس کی معنوی وسعت کو بخوبی سمجھتے تھے۔

مستی سے اس نگاہ کی لے محتسب خبر
دنیا تمام آج خرابات ہو گئی
-
دینے کو ملک سلیماں کے بلایا مجھ کو
پر قدم میں نہ رکھا دل کے نگر کے باہر
-
سوداؔ جو تیرا حال ہے اتنا تو نہیں وہ
کیا جانیے تو نے اسے کس آن میں دیکھا
-
قامت نے تیرے باغ میں جا خطِ بندگی
لکھوا لیا ہے سروِ چمن سے کھڑے کھڑے
-
اس قدر سادہ و پرکار کہیں دیکھا ہے
بے نمو اتنا نمودار کہیں دیکھا ہے
-
جس سے پوچھا میں کہ دل خوش ہے کہیں دنیا میں
رو دیا ان نے اور اتنا ہی کہا کہتے ہیں