منور رانا کی شاعری

منور رانا کی شاعری

منور رانا کی غزلیں

تِنکا اور چبھن

نقشے کوٹھیوں، محلوں اور عالیشان مقبروں کے بنتے ہیں
لیکن
غریب آدمی کی زندگی بغیر نقشے کا مکان ہوتی ہے
غریب بچوں کے کھلونے بغیر نقشے کا مکان ہوتے ہیں
غریب عورت کے کپڑے بغیر نقشے کا مکان ہوتے ہیں
غریب کا دسترخوان بغیر نقشے کا مکان ہوتا ہے
غریب لڑکی کی شادی بغیر نقشے کا مکان ہوتی ہے
غریب آدمی کا علاج بغیر نقشے کا مکان ہوتا ہے
غریب آدمی کی وفات بغیر نقشے کا مکان ہوتی ہے
غریب آدمی کی برات بغیر نقشے کا مکان ہوتی ہے
غریب بچے کا بستہ بغیر نقشے کا مکان ہوتا ہے
غریب مصنف کی تحریر بغیر نقشے کا مکان ہوتی ہے
غریب طوائف کی زندگی بغیر نقشے کا مکان ہوتی ہے
غریب چڑیا کا گھونسلہ بغیر نقشے کا مکان ہوتا ہے
غریب شاعر کا کلام بغیر نقشے کا مکان ہوتا ہے
غریب لیڈر کی سیاست بغیر نقشے کا مکان ہوتی ہے
غریب عورت کی خریداری بغیر نقشے کا مکان ہوتی ہے
غریب روزے دار کی افطاری بغیر نقشے کا مکان ہوتی ہے
غریب ماں باپ کے بچے بغیر نقشے کا مکان ہوتے ہیں
غریب آدمی کا تہوار بغیر نقشے کا مکان ہوتا ہے
غریب عورت کا سنگھار بغیر نقشے کا مکان ہوتا ہے
لیکن صبر وقناعت کے تقدس کی قسم
بھٹکتی ہے ہوس دن رات سونے کی دکانوں میں
غریبی کان چھدواتی ہے تنکا ڈال دیتی ہے

--
ہم کو اس مٹی میں بو دیں گی ہماری نسلیں
ہم کہیں بھی نہیں اس شہر سے جانے والے

--
اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے
ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے

--
ملیں گے آپ کو ہم لوگ ہر زمانے میں
ہمارے پیروں میں زنجیرِ ماہ و سال نہیں

--
رو رہے تھے سب تو میں بھی پھوٹ کر رونے لگا
ورنہ مجھ کو بیٹیوں کی رخصتی اچھی لگی

--
ننھا سا ایک نیم کا پودا کرے بھی کیا
ہر بیل چاہتی ہے اسے آسرا ملے

بہن

کس دن کوئی رشتہ مری بہنوں کو ملے گا
کب نیند کا موسم مری آنکھوں کو ملے گا

میری گڑیا سی بہن کو خودکشی کرنی پڑی
کیا خبر تھی دوست مرا اس قدر گر جائے گا

کسی بچے کی طرح پھوٹ کے روئی تھی بہت
اجنبی ہاتھ میں وہ اپنی کلائی دیتے

جب یہ سنا کہ ہار کے لوٹا ہوں جنگ سے
راکھی زمیں پہ پھینک کے بہنیں چلی گئیں

چاہتا ہوں کہ تیرے ہاتھ بھ پیلے ہو جائیں
کیا کروں میں کوئی رشتہ ہی نہیں آتا ہےے

--
ہم سایہ دار پیڑ زمانے کے کام آئے
جب سوکھنے لگے تو جلانے کے کام آئے

--
اڑنے سے پرندے کو شجر روک رہا ہے
گھر والے تو خاموش ہیں گھر روک رہا ہے

--
وہ چاہتی ہے کہ آنگن میں موت ہو میری
کہاں کی مٹی ہے مجھ کو کہاں بلاتی ہے

--
کئی گھروں کو نگلنے کے بعد آتی ہے
مدد بھی شہر کے جلنے کے بعد آتی ہے

نہ جانے کیسی مہک آ رہی ہے بستی سے
وہی جو دودھ اُبلنے کے بعد آتی ہے

ندی پہاڑوں سے میدان میں تو آتی ہے
مگر یہ برف پگھلنے کے بعد آتی ہے

وہ نیند جو تری پلکوں پہ خواب بُنتی ہے
یہاں تو دھوپ نکلنے کے بعد آتی ہے

یہ جھگیاں تو غریبوں کی خانقاہیں ہیں
قلندری یہاں پلنے کے بعد آتی ہے

گلاب ایسے ہی تھوڑے گلاب ہوتا ہے
یہ بات کانٹوں پہ چلنے کے بعد آتی ہے

شکایتیں تو ہمیں موسمِ بہار سے ہیں
خزاں تو پھولنے پھلنے کے بعد آتی ہے

--
مہاجرو یہی تاریخ ہے مکانوں کی
بنانے والا ہمیشہ بر آمدوں میں رہا

--
کسی دکھ کا کسی چہرے سے اندازہ نہیں ہوتا
شجر تو دیکھنے میں سب ہرے معلوم ہوتے ہیں

--
ضرورت سے اَنا کا بھاری پتھر ٹوٹ جاتا ہے
مگر پھر آدمی بھی اندر ندر ٹوٹ جاتا ہے

--
دہلیز پہ سر کھولے کھڑی ہوگی ضرورت
اب ایسے میں گھر جانا مناسب نہی ہوگا

--
ہماری زندگی کا اس طرح ہر سال کٹتاہے
کبھی گاڑی پلٹتی ہے کبھی ترپال کٹتا ہے

دکھاتے ہیں پڑوسی ملک آنکھیں تو دکھانے دو
کہیں بچوں کے بوسے سے بھی ماں کا گال کٹتا ہے

اسی الجھن میں اکثر رات آنکھوں میں گزرتی ہے
بریلی کو بچاتے ہیں تو نینی تال کٹتا ہے

کبھی راتوں کے سناٹے میں بھی نکلا کرو گھر سے
کبھی کرو گاڑی سے کیسے مال کٹتا ہے

سیاسی وار بھی تلوار سے کچھ کم نہیں ہوتا
کبھی کشمیر جاتا ہے کبھی بنگال کٹتا ہے

--
وہ میلا سا بوسیدہ سا آنچل نہیں دیکھا
برسوں ہوئے ہم نے کوئی پیپل نہیں دیکھا

انسانوں کو ہوتے ہوئے پاگل نہیں دیکھا
حیرت ہے کہ تم نے کبھی مقتل نہیں دیکھا

صحرا کی کہانی بھی بزرگوں سے سنی ہے
اس عہد کے مجنوں نے تو جنگل نہیں دیکھا

اس ڈر سے کہ دنیا کہیں پہچان نہ جائے
محفل میں کبھی اس کو مسلسل نہیں دیکھا

سونے کے خریدار نہ ڈھونڈو کہ منورؔ
مدت سے یہاں لوگوں نے پیتل نہیں دیکھا

--
فقیروں میں اٹھے بیٹھے ہیں شاہانا گزری ہے
ابھی تک جتنی بھی گزری ہے فقیرانہ گزری ہے

ہماری طرح ملتے تو زمیں تم سے بھی کھل جاتی
مگر تم نے نہ جانے کیسے مولانا گزاری ہے

نہ ہم دنیا سے الجھے ہیں نہ دنیا ہم سے الجھی ہے
کہ اک گھر میں رہے ہیں اور جداگانہ گزاری ہے

نظر نیچی کیے گزرا ہوں میں دنیا کے میلے سے
خدا کا شکر ہے اب تک حجابانا گزاری ہے

تمہارے عشق میں ہستی کو اپنی خاک کر ڈالا
تمہارے ساتھ ہم نے مثلِ پروانا گزاری ہے

--
گھر میں رہتے ہوئے غیروں کی طرح ہوتی ہیں
بیٹیاں دھان کے پودوں کی طرح ہوتی ہیں

اُڑ کے اک روز بہت دُور چلی جاتی ہیں
گھر کی شاخوں پہ یہ چڑیوں کی طرح ہوتی ہیں

سہمی سہمی ہوئی رہتی ہیں مکانِ دل میں
آرزوئیں بھی غریبوں کی طرح ہوتی ہیں

ٹوٹ کر یہ بھی بکھر جاتی ہیں اک لمحے میں
کچھ امیدیں بھی گھروندوں کی طرح ہوتی ہیں

آپ کو دیکھ کے جس وقت پلٹتی ہے نظر
میری آنکھیں، مری آنکھوں کی طرح ہوتی ہیں

باپ کا رتبہ بھی کچھ کم نہیں ہوتا، لیکن
جتنی مائیں ہیں فرشتوں کی طرح ہوتی ہیں

--
میاں پنجاب میں لاہور ہی شامل نہ تھا پہلے
اس کی کھیت کھلیانوں میں ہریانہ بھی ہوتا تھا

--
شور کچھ اتنا مچا دیں کہ یہ دنیا جاگے
اور پھر چپکے سے ہم جا کے کہیں سو جائیں

--
میں کھل کے ہنس تو رہا ہوں فقیر ہوتے ہوئے
وہ مسکرا بھی نہ پایا امیر ہوتے ہوئے

لکھی ہے خواری مقدر میں میرؔ ہوتے ہوئے
میں خانقاہ سے باہر ہوں پیر ہوتے ہوئے

یہاں عزتیں مرنے کے بعد ملتی ہیں
میں سیڑھیوں پہ پڑا ہوں کبیر ہوتے ہوئے

عجیب کھیل ہے دنیا تری سیاست کا
میں پیدلوں سے پٹا ہوں وزیر ہوتے ہوئے

یہ احتجاج کی دھن کا خیال رکھتے ہیں
پرندے چپ نہیں رہتے اسیر ہوتے ہوئے

نئے طریقے سے میں نے یہ جنگ جیتی ہے
کمان پھینک دی ترکش میں تیر ہوتے ہوئے

جسے بھی چاہیے مجھ سے دعائیں لے جائے
لٹا رہا ہوں میں دولت فقیر ہوتے ہوئے

تمام چاہنے والوں کو بھول جاتے ہیں
بہت سے لوگ ترقی پزیر ہوتے ہوئے

--
میں اپنے حلق سے اپنی چھری گزارتا ہوں
بڑے ہی کرب میں یہ زندگی گزارتا ہوں

تصورات کی دنیا بھی خوب ہوتی ہے
میں روز صحرا سے کوئی ندی گزارتا ہوں

میں اک حقیر سا جگنو سہی مگر پھر بھی
میں ہر اندھیرے سے کچھ روشنی گزارتا ہوں

یہی تو فن ہے کہ میں اس برے زمانے میں
سماعتوں سے نئی شاعری گزارتا ہوں

کہیں پہ بیٹھ کے ہنسنا کہیں پہ رو دینا
میں زندگی بھی بڑی دوغلی گزارتا ہوں

--
ہر ایک چہرہ یہاں پر گلال ہوتا ہے
تمہارے شہر میں پتھر بھی لال ہوتا ہے

کبھی کبھی تو میرے گھر میں کچھ نہی ہوتا
مگر جو ہوتا ہے رزقِ حلال ہوتا ہے

کسی حویلی کے اوپر سے مت گزر چڑیا
یہاں چھتیں نہیں ہوتی ہیں جال ہوتا ہے

یہیں پہ امن کی تبلیغ روز ہوتی ہے
یہیں پہ روز کبوتر حلال ہوتا ہے

شب الم کی درازی خدا بچائے تمہیں
یہاں پہ دن نہیں ہوتے ہیں سال ہوتا ہے

مقام ایسا بھی آتا ہے اک محبت میں
جہاں پہنچ کے پلٹنا محال ہوتا ہے

میں شہرتوں کی بلندی پہ جا نہیں سکتا
جہاں عروج پہ پہنچو زوال ہوتا ہے

میں اپنے آپ کو سید تو لکھ نہیں سکتا
اذان دینےسے کوئی بلال ہوتا ہے

--
تنہائی کو آسیب کا ڈر کاٹ رہا ہے
اب لوٹ کے آ جا مجھے گھر کاٹ رہا ہے

دنیا بھی کسی ریل کے ڈبے کی طرح ہے
ہر شخص یہاں اپنا سفر کاٹ رہا ہے

اب کوئی کسی سے بھی توقع نہیں رکھتا
ہر شخص تمناؤں کے پر کاٹ رہا ہے

غربت ابھی شاہوں سے الجھنے لگی ہے
آنسو ابھی ہیرے کا جگر کاٹ رہا ہے

سیلاب کا پانی کبھی روکا نہیں جاتا
کیوں راستہ تو دیدہء تر کاٹ رہا ہے

--
اتنی آسانی سے کب اہلِ ہنر بولتے ہیں
جب بلندی پہ پہنچتا ہوں تو پر کھلتے ہیں

--
میں بھی کس خوف زدہ شہر کا باشندہ ہوں
نہ شناسا کوئی ملتا ہے نہ گھر کھلتے ہیں

آپ کی چارہ گری میں ہی کمی ہے شاید
ورنہ دوبارہ کہاں زخمِ جگر کھلتے ہیں

آج کے دور کے انساں ہیں گرہ کی صورت
ان کو چھو لیتا ہے جب ناخنِ زر، کھلتے ہیں

کوئی دیوار اٹھاتے ہوئے یہ یاد رکھے
ایک دیوار میں اکثر کئی در کھلتے ہیں

گاؤں میں سادہ مزاجی ہے ابھی تک موجود
شہر میں لوگ نہیں کھلتے، سر کھلتے ہیں