اجمال / اختصار / ایجاز کے معنی اور امثال

اجمال / اختصار / ایجاز کے معنی اور امثال

مختصر کرنا یا کسی بات کو کھول کر بیان نہ کرنا اختصار یا ایجاز کہلاتا ہے۔ 
مشرقی نظامِ شعریات میں اختصار و اجمال کو بہت اہمیت حاصل ہے اور علم معنی میں بطور ادبی اصطلاح اسے ایجاز سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کم سے کم لفظوں میں وسیع تر مفہوم کو اس طرح ادا کیا کہ معنی میں خلل واقع نہ ہو۔ مشرقی علمائے شعر کے نزدیک خیال، جسم اور الفاظ اس کا لباس ہے اور اسی اعتبار سے اظہار و ابلاغِ معنی کے تین مدارج قرار پائے ہیں۔ بقول مولوی نجم الغنی: 

جو الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں یا تو مدعا کے مساوی ہوتے ہیں اس کو مساوات کہتے ہیں یا اس سے کم اور ناقص الفاظ سے مدعا ادا کیا جاتا ہے مگر ان الفاظ سے مدعا نکل آتا ہے اس کو ایجاز کہتے ہیں یا ادائے مطلب میں کچھ الفاظ بڑھ جاتے ہیں مگر بے فائد نہیں اس اطناب کہتے ہیں۔ {alertInfo}
 
سید عابد علی عابد کہتے ہیں:

اختصار کو جانِ کلام اس لیے کہا گیا ہے کہ جب شاعر کوئی دقیق یا پچیدہ کیفیت تھوڑے لفظوں میں ادا کرتا ہے اور اس کی تمام دلالتیں ہم پر روشن ہو جاتی ہیں تو ذہنِ انسانی کو ایک استعجاب سا ہوتا ہے اور دل کو فرحت بھی نصیب ہوتی ہے۔{alertInfo}

کچھ نہ دیکھا پھر بجز اک شعلہء پُر پیچ و تاب
شمع تک تو ہم نے دیکھا تھا کہ پروانہ گیا
(میر تقی میر)

اٹھنا ہی تیری بزم سے دشوار تھا مجھے
اس پر سنبھالنا دلِ بے اختیار کا
(داغ)