اشکال کے معنی اور امثال

اشکال کے معنی اور امثال

اشکال کا اطلاق ایسے اشعار و عبارت پر ہوتا ہے جن کی تفہیم دشوار ہو۔ تفہیم کی دشواری کئی چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے مثلاَ اجنبی الفاظ و محاورات، غیر معروف تلمیحات، استعارات اور نامانوس تشبیہات کا استعمال یا ایسے علوم و فنون کا حوالہ جن سے ہم واقف نہ ہوں۔ بقول نیر مسعود:

کوئی لفظ یا محاورہ، کسی علم و فن کا حوالہ یا کوئی تلمیح جس سے ہم واقف نہ ہوں ہمارے لیے اشکال کا باعث ہے، ورنہ بجائے خود وہ مشکل نہیں ہے۔ بہ الفاظ دیگر اشکال حل کا طالب ہوتا ہے اور حل ہو جانے کے بعد نہیں رہتا اس لیے عرض کیا گیا ہے کہ اشکال کا وجود حقیقی نہیں ہوتا۔ {alertInfo}

نیر مسعود کی پیش کردہ مثالیں ملاحظہ ہوں: 
جو طائر کو تفحص ہو دمِ تعشیش اغصاں کا 
اجانیں مہفف کو تعمد ہو تو اذعاں کا
(ظریف لکھنوی)

ہر بازی فلک پے تو نوروز روز کر
رکھ آفتابِ گنجفہ پر سال کا حساب
(شیخ ذوقؔ)

دیکھ چکا المنی شورشِ اصلاح دیں
جس نے نہ چھوڑے کہیں نقشِ کہن کے نشاں
(اقبال)

پہلے شعر میں الفاظ کی نامانوسیت، دوسرے شعر میں گنجفہ کی اصطلاح اور تیسرے شعر میں المنی کی تلمیح کی بنیاد پر اشکال واقع ہے۔ جو شخص ان الفاظ و اصطلاحات اور تلمیح سے واقف ہوگا اس کے لیے یہ اشعار مشکل نہیں ہوں گے۔ اسی لیے اشکال ایک اضافی شے ہے۔