یوم مزدور پر شاعری

یوم مزدور پر شاعری
 یکم مئی دنیا بھر میں عالمی یومِ مزدوراں کے طور پر منایا جاتا ہے تاکہ دنیا بھر میں مزدوروں کی تاریخی جد و جہد اور کامیابیوں کو یاد کیا جا سکے۔ عالمی یومِ مزدوراں کے دن پر ریختہ بلاگ نے مزدوروں کو خراجِ تحسین پیش کرنے لیے اردو شاعری میں سے چند اشعار کا انتخاب کیا ہے جو وقتا فوقتا آپ کی تقریروں اور تحریروں میں بھی کام آتے رہیں گے۔ 

آج مئی کا پہلا دن ہے آج کا دن مزدور کا دن ہے
ظلم و ستم کے مد مقابل حوصلہء جمہور کا دن ہے
(سرور بارہ بنکوی)

میں کہ ایک محنت کش میں کہ تیرگی دشمن
صبحِ نَو عبارت ہے میرے مسکرانے سے
(مجروح سلطانپوری)

مانا کہ کام ہوتا ہے جلدی مشین سے
مزدور کی خراب ہے مٹی مشین سے
(ساغر خیامی)

مزدور ہیں ہم، مزدور ہیں ہم، مجبور تھے ہم، مجبور ہیں ہم
انسانیت کے سینے میں رِستا ہوا اک ناسور ہیں ہم
(جمیل مظہری)

قابلِ عزت ہیں اس دنیا کے محنت کش عوام
ملک کی دولت ہیں یہ، واجب ہے ان کا احترام
(سید محمد جعفری)

روکو اس سینہ زوری کو
محنت کش کو بھی کھانا دو
(مظفر حنفی)

سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے
(منور رانا)

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
(علامہ اقبال)

کچل کچل کے نہ فٹ پاتھ کو چلو اتنا
یہاں پہ رات کو مزدور خواب دیکھتے ہیں
(احمد سلمان)

میں نے انورؔ اس لیے باندھی کلائی پہ گھڑی
وقت پوچھیں گے کئی مزدور بھی رستے کے بیچ
(انور مسعود)

شہر میں مزدور جیسا در بدر کوئی نہیں
جس نے سب کے گھر بنائے اس کا گھر کوئی نہیں
(نامعلوم)

ہنس کے ہر بوجھ زمانے کا اٹھا لیتا ہوں
میں ہوں مزدور مجھے اتنی حقارت سے نہ دیکھ
(شاہد کمال)

دولت کا فلک توڑ کے عالم کی جبیں پر
مزدور کی قسمت کے ستارے نکل آئے
(نشور واحدی)

تعمیر و ترقی والے ہیں کہیے بھی تو ان کو کیا کہیے
جو شیش محل میں بیٹھے ہوئے مزدور کی باتیں کرتے ہیں
(عبید الرحمان)

پیڑ کے نیچے ذرا سی چھاؤں جو اس کو ملی
سو گیا مزدور تن پہ بوریا اوڑھے ہوئے
(شارب مورانوی)

زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا
طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی
(علامہ اقبال)

گر ترے شہر میں آئے ہیں تو معذور ہیں ہم
وقت کا بوجھ اٹھائے ہوئے مزدور ہیں ہم
(خالد عرفان)

رنگ بدلے گا گلوں سے خون ٹپکے گا ابھی
بڑھ رہے ہیں دیکھ وہ مزدور دراتے ہوئے
(اسرار الحق مجاز)

زخم کھائے ہوئے مزدور کے بازو بھی تو ہیں
خاک اور خون میں غلطاں ہیں نظارے کتنے
(جاں نثار اختر)

گرنے والے قصر کی توصیف کیا
تیشہء مزدور کی باتیں کریں
(ساحر لدھیانوی)

زندگی خشک ہے ویران ہے افسردہ ہے
ایک مزدور کے بکھرے ہوئے بالوں کی طرح
(سرور ارمان)

ان کو مزدور کہنا ٹھیک نہیں 
لوگ جو مفلسی سے ڈرتے ہیں
(انیس ابر)