پطرس کے مضامین از پطرس بخاری

پطرس کے مضامین از پطرس بخاری
پطرس بخاری نے مزاح کے تاثر کو گہرا کرنے کے لیے ایک خاص طریقہ اپنایا کہ اپنی ذات کو ہدفِ مزاح بنایا۔ یہ طرزِ خاص کچھ ان ہی سے مخصوص ہے۔ دیگر مزاح نگاروں نے دوسروں کی ہنسی اُڑائی جبکہ پطرس اپنی ہنسی اڑاتے ہیں اور یہ عالی ظرفی کی بات ہے۔ {alertInfo}
 احمد شاہ بخاری (پطرس بخاری) اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ وہ ادب و انشا، طنز و مزاح اور تنقیدِ عالیہ میں دور دور تک اپنی مثال نہ رکھتے تھے۔ وہ بیک وقت ایک بلند پایہ عالم، ایک صاحبِ طرز ادیب، ایک عہد ساز استاد اور ایک سخت گیر منتظم تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ہم جلیس، بذلہ سنج اور بے فکر بانکے بھی تھے۔ انگریزی میں کمال پیدا کرنے کے باوجود بھی وہ انگریزی زدہ نہ تھے۔ ادبیات کے علاوہ دیگر تمام فنون لطیفہ سے بھی ان کی گہری دلچسپی تھی۔ ان کے منہ سے جو بات نکلتی تھی وہ ظرافت کی چاشنی کے بغیر نہ ہوتی تھی، اسی خصوصیت نے ان کو بزم آرا بنا دیا تھا۔ جب وہ کسی محفل میں شریک ہوتے تو وہاں ظرافت کا دربار لگ جاتا۔ احمد شاہ بخاری زندہ دل بھی تھے اور روشن دماغ بھی۔ 

پطرس بخاری کی دنیا محدود نہ تھی۔ ان کا مزاج مشرقی، ذہن مغربی اور طرزِ فکر عالمگیر تھا۔ انہوں نے جو کچھ لکھا، سوچ سمجھ کر لکھا۔ ان کی ہر تخلیق ایک کارنامہ ہے۔ 
صوفی تبسم لکھتے ہیں کہ پطرس کے مضامین بخاری کی مزاحیہ طبیعت کے آئنہ دار ہیں۔ مزاح نگاری بڑی ہلکی پھلکی شے ہے۔ لیکن ایک لطیف شے کو پیدا کرنے کے لیے ایک بڑی شخصیت کی ضرورت ہے، جب تک کسی شخص میں غیر معمولی ذہانت، عمیق مشاہدہ کی عادت اور شگفتہ طرزِ بیان کی قوت نہ ہو وہ کامیاب مزاح نگار نہیں بن سکتا۔ انسانی اعمال میں بعض حرکات بڑی مضحکہ خیز ہوتی ہیں لیکن ہر آنکھ انہیں نمایاں طور پر نہیں دیکھ سکتی، ایک مشاہدہ کار انسان انہیں بروئے کار لاتا ہے۔ 

اثر لکھنوی کے خیال میں پطرس مزاح نگاری کے جملہ لوازم سے واقف تھے اور انہیں حسبِ ضرورت استعمال کرنے کا سلیقہ بھی رکھتے تھے۔