ناصر کاظمی کے ۵۰ اشعار

ناصر کاظمی کے ۵۰ اشعار
ہم نے آباد کیا ملکِ سخن
کیسا سنسان سماں تھا پہلے

اے فلک بھیج کوئی برقِ خیال
کچھ تو شامِ شبِ ہجراں چمکے

شور برپا ہے خانہء دِل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی

آج کی رات نہ سونا یارو
آج ہم ساتواں دَر کھولیں گے

اس پیکرِ ناز کا فسانہ
دل  ہوش میں آئے تو سنائے

دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی

آنکھ کھلی تو تجھے نہ پا کر
میں کتنا بے چین ہوا تھا

پھر ساون رُت کی پون چلی تم یاد آئے
پھر پتوں کی پازیب بجی، تم یاد آئے

اور پچھلی رُت کے ساتھی
اب کے برس میں تنہا ہوں

10۔
تو ہے اور بے خواب دریچے
میں ہوں اور سنسان گلی ہے

11۔
مل ہی جائے گا رفتگاں کا سراغ
اور کچھ دن پھرو اداس اداس

12۔
چیخ رہے ہیں خالی کمرے
شام سے کتنی تیز ہوا ہے

13۔
ساری بستی سو گئی ناصر
تُو کیوں اب تک جاگ رہا ہے

14-
کتنے ادوار کی گم شدہ نوا
سینہء نَے میں چھپا دی ہم نے

15-
تیرا رستہ تکتے تکے
کھیت گگن کا سُوکھ رہا ہے

16-
اُس پیکرِ ناز کا فسانہ
دل ہوش میں آئے تو سنائے

17-
کچھ نہ سنا اور کچھ نہ کہا
دل میں رہ گئی دل کی بات

18-
وہ دلنواز ہے لیکن نظر شناس نہیں
مرا علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں

19۔
گو ہجر کے لمحات بہت تلخ تھے لیکن
ہر بات بعنوانِ طرب یاد رہے گی

20-
ایسا الجھا ہوں غمِ دنیا میں
ایک بھی خوابِ طرب یاد نہیں

21-
جب تجھے پہلی بار دیکھا تھا
وہ بھی تھا موسمِ طرب کوئی

22-
لے اُڑی سبزہء خود رو کی مہک
پھر تری یاد کا پہلو نکلا

23-
دنیا تو سدا رہے گی ناصرؔ
ہم لوگ ہیں یادگار کچھ دیر

24-
شہرِ لاہور تری رونقیں دائم آباد
تیری گلیوں کی ہَوا کھینچ کے لائی مجھ کو

25-
آؤ ناصر کوئی غزل چھیڑیں
جی بہل جائے گا ارے کچھ تو

26-
زندگی جس کے دم سے ہے ناصر
یاد اُس کی عذابِ جاں بھی ہے

27-
آج غربت میں بہت یاد آیا
اے وطن تیرا صنم خانہء گل

28-
رَس کہیں، رُوپ کہیں، رنگ کہیں
ایک جادو ہے خیالات کا چاند

29-
دل میں اک عمر جس نے شور کیا
وہ بہت کم رہا ہے آنکھوں میں

30-
شبنم آلودہ پلک یاد آئی
گلِ عارض کی جھلک یاد آئی

31-
نت نئی سوچ میں لگے رہنا
ہمیں ہر حال میں غزل کہنا

32-
فرصتِ موسمِ نشاط نہ پوچھ
جیسے اک خواب خواب میں دیکھا

33-
میرے چومے ہوئے ہاتھوں سے
اوروں کو خط لکھتا ہوگا

34-
ناصر بہت سی خواہشیں ہیں دل میں بیقرار
لیکن کہاں سے لاؤں وہ بے فکر زندگی

35-
اے سکوتِ شامِ غم یہ کیا ہوا
کیا وہ سب بیمار اچھے ہو گئے

36-
جلتا پھرتا ہوں دوپہروں میں
جانے کیا چیز کھو گئی ہے میری

37-
جدا ہوئے ہیں بہت لوگ ایک تم بھی سہی
اب اتنی بات پہ کیا زندگی حرام کریں

38-
تُو جو ناگاہ سامنے آیا
رکھ لیے میں نے ہاتھ آنکھوں پر

39-
یُوں ترے حسن کی تصویر غزل میں آئے
جیسے بِلقیس سلیماں کے مَحل میں آئے

40-
رنگ پیلا ہے تیرا کیوں ناصرؔ
تجھے کیا رَنج کھائے جاتا ہے

41-
آفتوں کے دَور میں
چین کی گھڑی ہے تُو

42-
ہم سبُو گھر سے نکلتے ہی نہیں اب ناصر
میکدہ رات گئے اب بھی کھلا ہوتا ہے

43-
دکھ کی دھوپ میں یاد آئے
تیرے ٹھنڈے ٹھنڈے بال

44-
تمام عمر یونہی ہم نے دُکھ اٹھایا ہے
زیادہ خرچ کیا اور کم کمایا ہے

45-
وہ کسی وقت نہ بھولا ناصرؔ
میں اسے یاد رہا یا نہ رہا

46-
جن میں بوئے وفا نہیں ناصر
ایسے لوگوں سے ہم نہیں ملتے

47-
پھر آج ترے دروازے پر بڑی دیر کے بعد گیا تھا مگر
اک بات اچانک یاد آئی، میں باہر ہی سے لوٹ آیا

48-
کیوں نہ سرسبز ہو ہماری غزل
خونِ دل سے لکھی ہے ساری غزل

49-
تہِ ہر لفظ شہر ہے آباد
مرجعِ خلق ہے ہماری غزل

50-
سفرِ خامہ طے ہوا ناصرؔ
تھک گئے ہم مگر نہ ہاری غزل