دیوان ناصر کاظمی

دیوان ناصر کاظمی
 "شاعری کو شور آفرینی کے انداز سے پاک و صاف کرنے میں راشد، میراجی کے فوراَ بعد جس شاعر نے غیر معمولی شائستگی، ضبط اور سلیقے سے کام لیا اور اسے داخلی، شستہ اور نرم و نازک لہجے سے ہم کنار کیا، وہ ناصرؔ کاظمی ہیں۔"{alertInfo}

"دیوان" کی شاعری ناصرؔ کاظمی کی شاعری کی ارتقائی منزل ہے۔ "برگِ نَے" میں ناصر نے کھوئے ہوؤں کی جستجو، اداسی، تنہائی اور رَت جگوں سے اپنی تخلیقی حویلی کو آباد کیا اور مستقبل کی امکانی روشنیوں سے اس کے در و بام کو سجایا اور پھر سے زندگی کے آثار پیدا کیے۔ ناصر ایک ایسا شاعر تھا، جس نے اپنے دیس سے بچھڑنے کے نوحے بھی لکھے اور نئی مٹی سے رشتہ استوار کر کے اسے سونا بنانے کی آرزو بھی کی۔ ناصر کاظمی نے کسی خاص مروجہ نظریے کے تحت شاعری نہیں کی، بلکہ اس نے اپنے دور کے ترقی پسندوں کے نظریے اور جدیدیت کے نظریوں کو جذب کر کے نئے طرزِ احساس کی بنیاد ڈالی۔ ناصر کاظمی کی نئی شاعری کا مزاج احساس تحیر سے عبارت تھا، اس نے انسانی اقدار کی توڑ پھوڑ کو بھی حیرت سے دیکھا اور نئی بستی بسانے کے خواب کو بھی حیرتی انداز سے پیش کیا۔ ناصر کاظمی کے نزدیک مردہ لمحوں کو زندہ کرنے کا نام شاعری ہے، یہ لمحے چاہے تہذیبی ہوں یا ثقافتی، اداسی، تنہائی، رَت جگوں اور یادوں کے لمحوں کو زندہ کرنے کا نام شاعری ہے اور یہی شاعری ناصر کاظمی کی نئی شاعری ہے، جو نہایت سادہ، آسان اور عام فہم ہے اور جس میں جذبے اور تخیل کی لہر کو ایک ساتھ محسوس کیا جا سکتا ہے۔