نشاطِ خواب ناصر کاظمی

نشاطِ خواب از ناصر کاظمی
ناصرؔ یہ شعر کیوں نہ ہوں موتی سے آبدار
اِس فن میں کی ہے مَیں نے بہت دیر جاں کُنی

ناصرؔ کاظمی کی جاں کُنی کا اظہار ان کی تخلیقات ہیں جنہوں نے سید ناصر رضا کو ناصرؔ کاظمی بنایا ہے۔ ناصرؔ کاظمی ایک ایسے شاعر تھے، جنہوں نے اپنی شاعری کی حویلی میں پرانے اور نئے دونوں شہر آباد کر رکھے تھے، ان کی شاعری کے باغات میں انبالہ کے آموں، امرودوں اور جامنوں کے ذائقے بھی ملیں گے اور لاہور کی الیچی جیسے نئے اور تازہ پھلوں کی خوشبو بھی۔ ناصرؔ ایک ایسا نیا اور جدید شاعر ہے، جس نے روایت کے مٹی گارے اور حال کے سفید سیمنٹ سے اپنی نئی شاعری کا پختہ مکان تعمیر کیا ہے۔ ناصرؔ معتقدِ میرؔ بھی ہے اور نئی روشنی کے حامل مشرق اور مغربی دانشوروں کی سوچوں کا اسیر بھی، مگر اس کی تخلیقات میں مشرقی اور مغربی اقدارِ فن کی حسرت تعمیر نہیں ہے، بلکہ اس کی تخلیق کی حویلی اس کی اپنی ہے اور سب سے جدا ہے۔ 

ناصرؔ کاظمی ایک ایسا شاعر ہے، جو اپنا ناتہ مٹی سے استوار کرتا ہے، اس کے پاؤں کے نیچے جو زمین ہے، وہ اس کا احسان مند ہے کہ اس نے اس کا بار اٹھایا ہوا ہے، پھر یہی زمین اس کے جسم و روح کے رشتے کو بھی برقرار رکھے ہوئے ہے، سو اسی لیے اس کے نزدیک ماں دھرتی کی عزت اور وقار حقیقی ماں کی طرح ہے، وہ اپنی جنم بھومی کو اس لیے نہیں بھولتا کہ اس نے اسی دھرتی پر لکھنا سیکھا تھا اور وہیں پر سب سے پہلے قادر مطلق کا نام لکھا تھا۔