امراؤ جان ادا - مرزا ہادی رسوا pdf


امراؤ جان ادا - مرزا ہادی رسوا pdf
مرزا رسواؔ کا پورا نام مرزا محمد ہادی تھی۔ 1857ء کے لگ بھگ لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ان کے جدِ اعلیٰ مرزا رشید بیگ مازندران (ایران) سے دہلی آئے تھے۔ اور وہاں فوج میں ملازم تھے۔ رسواؔ پندرہ سولہ برس کے تھے جب والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ان کی پرورش خالہ اور ماموں کی سپرد ہوئی۔ جنہوں نے خاصی بے اعتنائی برتی۔ والد کے دوستوں میں ایک جعل ساز خوشنویس تھے وہ مرزا محمد ہادی پر مہربان ہوئے اور ان کی مالی اعانت اور کچھ والدہ کے چند مکانوں کے کرائے کی آمدنی سے تعلیم حاصل کی۔ شاعری سے ان کو گہرا شغف تھا اور مرزا دبیرؔ کے شاگرد رشید مرزا اوجؔ کے شاگرد ہوئے۔ شاعری میں مرزا تخلص کرتے تھے۔
مرزا محمد ہادی رسوا جامع حیثیات ہیں۔ ان کی تصانیف مختلف نوع کی ہیں۔ ناولوں میں شریف زادہ، ذات شریف، امراؤ جان ادا، افشائے راز، نالہء رسوا، اختری بیگم مشہور ہیں۔

مرزا ہادی رسوا کا ناول امراؤ جان ادا، اندازِ بیاں اور لطفِ زبان کے اعتبار سے اردو کے چند کامیاب ترین ناولوں میں شمار ہوتا ہے اس میں نہ تو سرشار کے فسانہء آزاد کا لچھے دار اندازِ بیان ہے جس میں سجاوٹ اور مرصع کاری کو زیادہ دخل ہوتا ہے نہ نذیر احمد کی ثقہ اور کسی قدر خشک اندازِ تحریر ہے۔ مرزا رسوا نے اس قصے کو امراؤ جان کی زبانی بیان کر کے نسوانی زبان کی گھلاوٹ، نرمی اور بے تکلفی اور رنگینی پیدا کرنے کا جواز نکال لیا ہے، ان کا اندازِ بیان سادہ بھی ہے اور رنگین بھی، لیکن یہ رنگینی مرصع کاری سے پیدا نہیں ہوئی ہے بلکہ گفتگو کے لب و لہجے اور بے ساختگی سے ابھری ہے۔ پھر اس بیان میں رسواؔ نے محاورے کے چٹخارے کو بھی رکھا ہے اور ایسے متعدد الفاظ اور اصطلاحات برتے ہیں جو خاص لکھنؤ کی ٹکسالی بول چال میں رائج تھے۔

اندازِ بیاں کی ایک یہ خصوصیت بھی ہے کہ اس میں شخصیت کا پورا انوکھا پن اور نُدرتِ احساس ادا ہو جائے اور اس اعتبار سے امراؤ جان کا اسلوب ناول کی جان ہے۔ اس میں قصہ بیان کرنے کا ہنر ہی نہیں ملتا بلکہ مصنف کے ندرتِ احساس کی بے نظیر مثالیں ملتی ہیں۔ ان تمام خصوصیات کی بِنا پر یقیناََ امراؤ جان ادا ہمارے ادب کے بہترین ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔