مثنوی گلزار نسیم مرتبہ رشید حسن خاں
مثنوی حقیقت میں ایک سرگزشت یا بیانِ ماجرا ہے، جسے تاریخ کا شعبہ سمجھنا چاہیے۔ اس واسطے اس کے اصول میں لکھا ہے کہ نہایت سلیس گفتگو میں ہو، جس طرح ہم تم باتیں کرتے ہیں۔ میر حسنؔ مرحوم نے اسے لکھا اور ایسی صاف زبان، فصیح محاورے اور میٹھی گفتگو میں اور کیفیت کے ساتھ ادا کیا جیسے آبِ رواں۔ اصل واقعے کا نقشہ آنکھوں میں کھنچ گیا اور انہیں باتوں کی آوازیں کانوں میں آنے لگیں جو اُس وقت وہاں ہو رہی تھیں۔
پنڈت دیا شنکر نسین نے گلزارِ نسیم لکھی اور بہت خوب لکھی۔ لیکن پنڈت صاحب نے ہر مضمون کو تشبیہہ کے پردے میں اور استعارے کے پیچ میں ادا کیا اور وہ ادا، معشوقانہ خوش ادائی نظر آئی۔ اِس کے پیچ، وہی بانکپن کی مروڑ ہیں جو پریزادیں بانکا دوپٹا اوڑھ کر دکھاتی ہیں اور اکثر مطالب کو بھی اشاروں اور کنایوں کے رنگ میں دکھایا ہے؛ باوجود اس کے، زبان فصیح اور کلام شستہ اور پاک ہے۔ اختصار بھی اس مثنوی کا ایک نمایاں وصف ہے جس کا ذکر کرنا واجب ہے، کیوں کہ ہر معاملے کو اس قدر مختصر کر کے ادا کیا ہے جس سے زیادہ ہو ہی نہیں سکتا اور ایک شعر بیچ میں سے نکال دو تو داستان برہم ہو جاتی ہے۔
گلزارِ نسیم نے مثنوی نگاری میں ایک نئے رنگ کا اضافہ کیا، جو اس سے پہلے اس طرح متعارف نہیں تھا۔ یوں یہ اپنے طرز کی منفرد مثنوی ہے۔ اس چھوٹے سے دائرے کے اندر اس میں سارے محاسن موجود ہیں جس سے اس خاص انداز کی یکتائی کے نقش و نگار بنتے ہیں۔
Tags:
دیا شنکر نسیم