مثنوی گلزار نسیم از پنڈت دیا شنکر نسیم
گلزارِ نسیم اُردو کی مایہ ناز مثنوی ہے۔ اس میں قدیم زمانہ کی ایسی شاعرانہ فن کاری ملتی ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ اس کی شہرت و مقبولیت اور فنی اوصاف کی بنا پر بلا خوف و تردید کہا جا سکتا ہے کہ اس مثنوی کے علاوہ اگر ہندوؤں نے اُردو کی تخلیق و تزئین میں کچھ حصہ نہ لیا ہوتا تو بھی اُن کے حق دار ہونے میں کسی شبہہ کی گنجائش نہ تھی۔ اس مثنوی کی مقبولیت کا ادنیٰ ثبوت یہ ہے کہ صرف نول کشور پریس لکھنؤ سے پچیس بار اس کی اشاعت ہو چکی ہے۔ چکبستؔ لکھنوی کا اردو جاننے والوں پر بڑا احسان ہے کہ چند سطروں میں نسیمؔ کے حالات قلم بند کر دیے۔ یہی مختلف جگہ ملتے ہیں ان میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہو سکا ہے۔
پنڈت دیا شنکر نسیمؔ لکھنوی 1811ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے آبا و اجداد کشمیری برہمن تھے لیکن ایک مدت سے لکھنؤ میں مقیم تھے۔ نسیم کی پیدائش لکھنؤ میں ہوئی اور وہیں ان کی پرورش و پرداخت بھی ہوئی۔ ان کے والد کا نام پنڈت گنگا پرشاد کول تھا۔ چکبست نے اپنے بزرگوں سے سنا تھا کہ نسیمؔ کشمیریوں کی طرح بہت خوبصورت نہ تھے۔ "پستہ قامت، گندمی رنگ سیہ چشم اور پھریرے بند کے آدمی تھے۔" (دیباچہ گلزارِ نسیم)
لیکن اس مختصر سراپا کے الفاظ سے تو ہی ظاہر ہوتا ہے کہ نسیمؔ قبول صورت تھے۔ لکھنؤ میں پیدا ہونے کی وجہ سے اُردو اور فارسی کی تعلیم ملی۔ شعرائے اردو کے کلام سے واقفیت ہوئی۔ طبیعت شاعری سے مناسبت رکھتی تھی۔ لکھنؤ کی ادبی صحبتوں نے قندِ مکرر کا کام کیا۔
Tags:
دیا شنکر نسیم