حسن کا عرفان اگر چاہیے - تابش دھلوی

 حسن کا عرفان اگر چاہیے
حسن سے بھی قطعِ نظر چاہیے

تلخ، غمِ زندگی بھی زہر بھی
زہر مگر زود اثر چاہیے

تیرے سوا کیا ہمیں درکار ہے
چاہیے کیا تجھ کو اگر چاہیے

عشرتِ آئینہ سہی حسنِ دوست
پھر کوئی اہلِ نظر چاہیے

قیس نہیں ہے تو کوئی گردبارد!
دشت کو خاک بسر چاہیے

برق سہی روشنیِ غم کدہ
کچھ تو اجالے کا گزر چاہیے

ہم بھی کلیمی کریں یہ کیا ضرور
اپنا اک اندازِ نظر چاہیے

تیرا ہنر عیب ہے تابشؔ مگر
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیے

-------
تابشؔ دھلوی