میر جعفر زٹلی کا فن اور منتخب کلام

جعفر زٹلی کا فن اور منتخب کلام  نہ منھ چھپا کے جئے ہم نہ سر جھکا کے جئے ستم گروں کی نظر سے نظر ملا کے جئے اب ایک رات اگر کم جئے تو حیرت کیوں ہم ان کے ساتھ تھے جو مشعلیں جلا کے جئے  - ادبی دنیا میں میر جعفر زٹلیؔ ایک اچھوتی اور دلنواز شخصیت کا مالک ہے۔ وہ ایک ایسا دانشور تھا جو دانش و بینش کو حیات و کائنات کی بوالعجبیاں سمجھنے کا واحد ذریعہ سمجھتا تھا۔ جاہ و جلال، زہد و تقدس، شوکت و حشمت کوئی چیز اسے تہہ تک پہنچنے اور حقیقت کو سمجھنے سے روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی تھی۔ وہ اپنے تجربات اور مشاہدات کے بے محابا اظہار کی قدرت رکھتا تھا۔ ایسا دانشور اپنی جراتِ رندانہ کا صلہ سزائے موت کی صورت میں وصول کرتا ہے اور آبگینوں کا سا ظرف رکھنے والے علم و ادب کے مورخ اور اخلاق کے معلم اس کے کارناموں پر پردہ ڈال کر یا تو اس کا نام مٹا دینے کی معصومانہ کوشش کرتے ہیں یا پھر اس کی شخصیت اور اس کے علمی و ادبی کارنامے کو مضحکہ خیز بنا کر پیش کرتے ہیں۔ جعفر زٹلیؔ کو دونوں ہی سزائیں ملیں۔ اس کے بے مثال ادبی کارنامے کو جس بے رحمی سے مسخ کر کے پیش کیا گیا اس کی مثال مشکل ہی سے ملے گی۔   جعفر زٹلیؔ نے زمانے سے کوئی سمجھوتہ نہ کیا۔ اس نے اخلاقی بے راہ روی اور تہذیبی گراوٹ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی اور ایسا کرتے ہوئے زمانہ سازی یا کسی بھی قسم کی مصلحت سے زرا بھی کام نہ لیا۔   جعفر نارنول کے ایک سید گھرانے کے چشم و چراغ اور دہلی کے باشندے تھے۔ میرؔ نے لکھا ہے کہ وہ "نادرہء زمان و اعجوبہء دوران" تھے۔ میر حسنؔ نے بھی ان کے ذکر میں یہی الفاظ دہرائے ہیں۔ قائمؔ انہیں "از تحائفِ روزگار" قرار دیتا ہے۔   ان کی تاریخِ ولادت اور عمر کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلتا۔ شورش نے صرف اتنا کہا ہے کہ فرخ سیر نے انہیں قتل کرادیا تھا۔ ان کا بیان ہے کہ نواب ذوالفقار خان بہادر کے انتقال کے بعد جعفر نے کہا تھا:  سکہ زد بر گندم و موٹھ و مٹر بادشا ہے تسمہ کش فرخ سیر یہ شعر سن کر بادشاہ کا مزاج برہم ہو گیا اور اس نے جعفر کو "جنت روانہ کر دیا"۔  فرخ سیر 1125ھ میں تخت نشین ہوا تھا۔ اس نے جہاندار کو شکست دینے کے بعد اسے اور اس کے وزیر کو گرفتار کر لیا اور دونوں کو تسموں سے گلا گھونٹ کر مروا ڈالا جب وہ دہلی میں داخل ہوا تو اس کے استقبال کو جہاندار کا سر نیزے پر چڑھا ہوا اور دھڑ ہاتھی کی ننگی پیٹھ پر رکھا ہوا تھا: اور اس کے وزیر ذوالفقار خاں کی لاش اسی ہاتھی کی دم سے بندھی ہوئی تھی۔ اس لاشوں کی اسی طرح شہر بھر میں تشہیر کی گئی۔   فرخ سیر کی تخت نشینی کے بعد بھی تسمہ کشی کا یہ سلسلہ جاری رہا، متعدد نامور افراد موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اگر کوئی دربار سے صحیح سلامت گھر واپس آ جاتا، تو شکرانے میں نذر نیاز دیتا تھا۔ سب لوگ فرخ سیر کی اسی تسمہ کشی سے آگاہ تھے۔ جعفرّ کا شعر بھی اسی ہراس اور دہشت زدگی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔   قیاس ہے کہ جعفرؔ کا قتل فرخ سیر کی حکومت کے ابتدائی زمانے میں ہوا ہوگا۔ جعفر کی جو افتادِ مزاج تھی، اس کے پیشِ نظر یقین ہے کہ وہ خاموش رہنے والا آدمی نہ تھا؛ اس نے یہ شعر اسی زمانے میں کہا ہوگا جب قتل اور تسمہ کشی کا بازار گرم تھا۔ یہ بھی یقینی ہے کہ فرخ سیر معاف کر دینے والا آدمی نہیں تھا؛ اس نے شعر سن کر اسے موٹ کے گھاٹ اتروا دیا۔   زٹلیؔ لقب اختیار کرنے سے متعلق دو مختلف روایتیں ہم تک پہنچتی ہیں۔ پہلی یہ ہے کہ جعفرؔ زٹلی کہا کرتا تھا کہ میں کتنی بھی کوشش کروں۔ سعدیؔ یا فردوسیؔ نہیں بن سکتا۔ پس زٹل کہتا ہوں کہ کسی طور ممتازِ عالم تو ہو جاؤں۔   دوسرا یہ کہ جعفر نے ایک بار ہمعصر شاعروں کے سامنے اپنا یہ فارسی شعر پڑھا:  ما را اگرچہ دیدنِ در یتیم نیست نظارہ سوئے دانہء شبنم غنیمت است  ان شعرا نے رشک کے مارے اس شعر کو زٹل قرار دیا۔ جعفر نے جواب دیا کہ اگر یہ زٹل ہے تو میں زٹل ہی کہوں گا۔  پان کھا کر گنڈ مروّا کھیلیے باغ جا کر گنڈ مروّا کھیلیے  بادشاہی ہے بہادر شاہ کی بن بنا کر گنڈ مروّا کھیلیے  داڑھی مونچھیں جو ہیں منھ پر سفید سب مُنڈا کر گنڈ مروّا کھیلیے  پیر سے اور باپ سے، اُستاد سے چھپ چھپا کر گنڈ مروّا کھیلیے -  دلا! در مفلسی سب سے اکڑ رہ بہ عالم بے کسی! سب سے اکڑ رہ  چکن اور زر کا چیرا، پشم کر بوجھ پھٹی پگ باندھ کر سب اکڑ رہ - کلر لگا دیوار کو کہ جعفرؔ اب کیا کیجیے خطرہ ہوا آثار کو، کہ جعفرؔ اب کیا کیجیے  اینٹیں تمامی گھس چلی، ماٹی تمامی رِس چلی کیا دوس ہے معمار کو، کہ جعفرؔ اب کیا کجیجے -  بِیا جعفرؔ توکل پر قدم رکھ خدا کی یاد دل میں دم بہ دم رکھ -

 نہ منھ چھپا کے جئے ہم نہ سر جھکا کے جئے
ستم گروں کی نظر سے نظر ملا کے جئے
اب ایک رات اگر کم جئے تو حیرت کیوں
ہم ان کے ساتھ تھے جو مشعلیں جلا کے جئے

-
ادبی دنیا میں میر جعفر زٹلیؔ ایک اچھوتی اور دلنواز شخصیت کا مالک ہے۔ وہ ایک ایسا دانشور تھا جو دانش و بینش کو حیات و کائنات کی بوالعجبیاں سمجھنے کا واحد ذریعہ سمجھتا تھا۔ جاہ و جلال، زہد و تقدس، شوکت و حشمت کوئی چیز اسے تہہ تک پہنچنے اور حقیقت کو سمجھنے سے روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی تھی۔ وہ اپنے تجربات اور مشاہدات کے بے محابا اظہار کی قدرت رکھتا تھا۔ ایسا دانشور اپنی جراتِ رندانہ کا صلہ سزائے موت کی صورت میں وصول کرتا ہے اور آبگینوں کا سا ظرف رکھنے والے علم و ادب کے مورخ اور اخلاق کے معلم اس کے کارناموں پر پردہ ڈال کر یا تو اس کا نام مٹا دینے کی معصومانہ کوشش کرتے ہیں یا پھر اس کی شخصیت اور اس کے علمی و ادبی کارنامے کو مضحکہ خیز بنا کر پیش کرتے ہیں۔ جعفر زٹلیؔ کو دونوں ہی سزائیں ملیں۔ اس کے بے مثال ادبی کارنامے کو جس بے رحمی سے مسخ کر کے پیش کیا گیا اس کی مثال مشکل ہی سے ملے گی۔ 

جعفر زٹلیؔ نے زمانے سے کوئی سمجھوتہ نہ کیا۔ اس نے اخلاقی بے راہ روی اور تہذیبی گراوٹ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی اور ایسا کرتے ہوئے زمانہ سازی یا کسی بھی قسم کی مصلحت سے زرا بھی کام نہ لیا۔ 

جعفر نارنول کے ایک سید گھرانے کے چشم و چراغ اور دہلی کے باشندے تھے۔ میرؔ نے لکھا ہے کہ وہ "نادرہء زمان و اعجوبہء دوران" تھے۔ میر حسنؔ نے بھی ان کے ذکر میں یہی الفاظ دہرائے ہیں۔ قائمؔ انہیں "از تحائفِ روزگار" قرار دیتا ہے۔ 

ان کی تاریخِ ولادت اور عمر کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلتا۔ شورش نے صرف اتنا کہا ہے کہ فرخ سیر نے انہیں قتل کرادیا تھا۔ ان کا بیان ہے کہ نواب ذوالفقار خان بہادر کے انتقال کے بعد جعفر نے کہا تھا:

سکہ زد بر گندم و موٹھ و مٹر
بادشا ہے تسمہ کش فرخ سیر
یہ شعر سن کر بادشاہ کا مزاج برہم ہو گیا اور اس نے جعفر کو "جنت روانہ کر دیا"۔
فرخ سیر 1125ھ میں تخت نشین ہوا تھا۔ اس نے جہاندار کو شکست دینے کے بعد اسے اور اس کے وزیر کو گرفتار کر لیا اور دونوں کو تسموں سے گلا گھونٹ کر مروا ڈالا جب وہ دہلی میں داخل ہوا تو اس کے استقبال کو جہاندار کا سر نیزے پر چڑھا ہوا اور دھڑ ہاتھی کی ننگی پیٹھ پر رکھا ہوا تھا: اور اس کے وزیر ذوالفقار خاں کی لاش اسی ہاتھی کی دم سے بندھی ہوئی تھی۔ اس لاشوں کی اسی طرح شہر بھر میں تشہیر کی گئی۔ 

فرخ سیر کی تخت نشینی کے بعد بھی تسمہ کشی کا یہ سلسلہ جاری رہا، متعدد نامور افراد موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اگر کوئی دربار سے صحیح سلامت گھر واپس آ جاتا، تو شکرانے میں نذر نیاز دیتا تھا۔ سب لوگ فرخ سیر کی اسی تسمہ کشی سے آگاہ تھے۔ جعفرّ کا شعر بھی اسی ہراس اور دہشت زدگی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ 

قیاس ہے کہ جعفرؔ کا قتل فرخ سیر کی حکومت کے ابتدائی زمانے میں ہوا ہوگا۔ جعفر کی جو افتادِ مزاج تھی، اس کے پیشِ نظر یقین ہے کہ وہ خاموش رہنے والا آدمی نہ تھا؛ اس نے یہ شعر اسی زمانے میں کہا ہوگا جب قتل اور تسمہ کشی کا بازار گرم تھا۔ یہ بھی یقینی ہے کہ فرخ سیر معاف کر دینے والا آدمی نہیں تھا؛ اس نے شعر سن کر اسے موٹ کے گھاٹ اتروا دیا۔ 

زٹلیؔ لقب اختیار کرنے سے متعلق دو مختلف روایتیں ہم تک پہنچتی ہیں۔ پہلی یہ ہے کہ جعفرؔ زٹلی کہا کرتا تھا کہ میں کتنی بھی کوشش کروں۔ سعدیؔ یا فردوسیؔ نہیں بن سکتا۔ پس زٹل کہتا ہوں کہ کسی طور ممتازِ عالم تو ہو جاؤں۔ 

دوسرا یہ کہ جعفر نے ایک بار ہمعصر شاعروں کے سامنے اپنا یہ فارسی شعر پڑھا:

ما را اگرچہ دیدنِ در یتیم نیست
نظارہ سوئے دانہء شبنم غنیمت است

ان شعرا نے رشک کے مارے اس شعر کو زٹل قرار دیا۔ جعفر نے جواب دیا کہ اگر یہ زٹل ہے تو میں زٹل ہی کہوں گا۔

پان کھا کر گنڈ مروّا کھیلیے
باغ جا کر گنڈ مروّا کھیلیے

بادشاہی ہے بہادر شاہ کی
بن بنا کر گنڈ مروّا کھیلیے

داڑھی مونچھیں جو ہیں منھ پر سفید
سب مُنڈا کر گنڈ مروّا کھیلیے

پیر سے اور باپ سے، اُستاد سے
چھپ چھپا کر گنڈ مروّا کھیلیے
-

دلا! در مفلسی سب سے اکڑ رہ
بہ عالم بے کسی! سب سے اکڑ رہ

چکن اور زر کا چیرا، پشم کر بوجھ
پھٹی پگ باندھ کر سب اکڑ رہ
-
کلر لگا دیوار کو کہ جعفرؔ اب کیا کیجیے
خطرہ ہوا آثار کو، کہ جعفرؔ اب کیا کیجیے

اینٹیں تمامی گھس چلی، ماٹی تمامی رِس چلی
کیا دوس ہے معمار کو، کہ جعفرؔ اب کیا کجیجے
-

بِیا جعفرؔ توکل پر قدم رکھ
خدا کی یاد دل میں دم بہ دم رکھ
-