غبارِ خاطر از مولانا ابوالکلام آزاد

غبارِ خاطر از مولانا ابوالکلام آزاد
 "غبارِ خاطر" مولانا ابوالکلام آزاد کی ایسی یادگار ہے کہ اس سے مولانا کی ہمہ جہت زندگی کا سراغ ملتا ہے۔ جو شخص پہلی دفعہ کوہ ہمالیہ یا سمندر کو دیکھتا ہے تو اُس پر ایک عجیب و غریب حیرت انگیز سکتہ طاری ہو جاتا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے جب پہلی بار بحری جہاز کا سفر کیا اور سمندر کو دیکھا تو عجب انداز میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ ایسے ہی "غبارِ خاطر" ہے کہ اس کو پڑھنے کے بعد انسان سوچتا ہے کہ ابوالکلام آزاد کیا اور کیسا انسان تھا۔ اس کے دل و دماغ کی بوقلمونیاں دیکھ کر آدمی استعجاب کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی نے لکھا ہے (یاد رہے کہ صدیقی صاحب اُردو کے ادیب، طنّاز اور سرسید کے متکبہء فکر کے آدمی تھے)
"مولانا ان ہستیوں میں سے تھے جو اپنے عہد سے بڑی تھیں۔ وہ آفریئندہء عہد تھے اس لیے ان کی کش مکش ایسے لوگوں سے رہتی ہے جو زائیدہ عہد ہوتے ہیں وہ ہماری تاریخ، ہماری تہذیب اور ہمارے علوم کا اعتبار و افتخار تھے۔ اس کا احساس آج ہو رہا ہے جب وہ ہم میں نہیں رہے۔ کیا کیا جائے ایسا احساس بھی ایسے ہی وقت ہوتا ہے۔" (آئینہ ابوالکلام)