ساجد سجنیؔ کا فن اور منتخب اشعار ریختی

ساجد سجنیؔ کا فن اور منتخب اشعار ریختی
ساجد سجنیؔ ایک بڑے ریختی گو شاعر ہیں۔ ریختی کے لغوی معنی ہیں "وہ نظم جو عورتوں کی بولی میں کہی جائے"۔ عورتوں کی بولی کو تقریباََ ہر ادب نے مستند مانا ہے۔ اسی لیے ادب میں عوام کی زبان کو "مادری زبان" کہا گیا ہے۔ 

ریختی اردو شاعری کی صنف بدنام ہے۔ بہت سے شعراء نے ریختی سے اجتناب برتا۔ خود سجنی کو بھی اسی احساس نے جگائے رکھا کہ جن وجوہ سے یہ صنف بدنام ہے اس سے گریز کیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے ریختی کو مہذب بنانے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔ انکی ریختیاں ہر محفل میں سننے اور پڑھنے کے لائق ہیں۔ ریختی بذاتِ خود بری نہیں ہے۔ ریختی کو جس صورت میں پیش کیا گیا ہے وہ طریقہ برا ہے۔ اگر ہم ریختی کا لب و لہجہ قائم رکھتے ہوئے موضوعات کو مہذب بنا سکتے ہیں تو زبان و بیان کے اعتبار سے ریختی سے بڑھ کر کوئی دوسری صنفِ سخن موجود نہیں ہے۔ ریختی میں سماجی، سیاسی، خانگی اور اخلاقی مسائل کے رموز کو بڑی چابکدستی سے نسوانی انداز میں قلم بند کیا گیا ہے۔ 

سجنیؔ 1922ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی، شعری ذوق فطرت کی دین ہے، اس لیے بچپن ہی سے شعر و شاعری سے دلچسپی رہی۔ 

ذیل میں ساجد سجنی کے منتخب اشعار پیش کیے جاتے ہیں :

1-
یہ تو مانتی ہوں سجنیؔ کہ ملی ہو بعد مدت
مجھے اس قدر نہ بھینچو مرا دم نکل نہ جائے

تجھے اس لیے پڑوسن میں نظر میں رکھ رہی ہوں
کہیں ان سے ملتے ملتے تری دال گل نہ جائے

2-
یہ مانا وہ بڑا پُر فن ہے کیا کِیا جائے
نثار پھر بھی مرا مَن ہے کیا کِیا جائے

3-
یہ راز میں نہ سمجھ پائی آج تک بھابھی!
کہ تم سے آتی ہے کیوں بھائی جان کی خوشبو

4-
جو کھنک سے ڈرتی ہیں رات کے اندھیرے میں
اُن کے دستِ نازک میں چوڑیاں نہیں ہوتیں

5-
بے تکلف ان سے اتنی بی پڑوسن ہو گئیں
دیکھتے ہی دیکھتے اِک روز سوتن ہو گئیں

6-
کل رات کو جب سونے گئیں اچھی بھلی تھیں
لو رات سے دُکھنے لگی بھابھی کی کمر پھر

7-
اب جانے دولہا بھائی میں کیا کیڑے پڑ گئے
جانے کو منع کرتے ہیں باجی کے گھر مجھے

8-
یاد آئیں اُس کو میری وفائیں جو میرے بعد
آ کر لحد پہ گریہ کُناں دیر تک رہا

9-
جب کسی عورت سے ہنستے دیکھ لیتی ہوں انہیں
صاف کہتی ہوں کہ جل کر خاک ہو جاتی ہوں میں

10-
اب نہ مانوں گی نہ مانوں گی کوئی آپ کی بات
کہے دیتی ہوں کہ کل سے مرا روزہ ہوگا
11-
آگ لینے کو یہاں آئی تھی دولہا بھائی
جانے دیجیے مجھے مُنّا مرا روتا ہوگا!

12-
سجنیؔ وہ کہہ رہے تھے کہو کیا خیال ہے
رمضان کا بہانہ تھا رمضان تو گیا

13-
میں اگلی پچھلی منوا لوں گی اُس سے
کبھی جب مہرباں راتوں میں ہوگا

14-
وہ طعنے ساس نندوں کے سُنے ہیں
کلیجہ اِک پھپھولا ہو گیا ہے

15-
بلا مقصد جو مجھ کو چھیڑتے ہو
ہٹو بھی تم کو یہ کیا ہو گیا ہے

16-
مصیبت نو مہینے مائیں جھیلیں
مگر ہے باپ ہی کا نام بھابھی

17-
چلو سجنیؔ کو سُن لیں اُس کے گھر پر
بھرا غزلوں کا ہے گودام بھابھی

18-
دیورانیاں جٹھانیاں نندیں ہیں ساس ہے
سسرال آ کے گھِر گئی کتنی بلاؤں میں

19-
میرے بستر پہ تم نہ سو بھابھی
اُن کو میرا گماں نہ ہو جائے

ہنس کے دیکھو نہ اس طرح سجنیؔ
کوئی حسرت جواں نہ ہو جائے

20-
طلاق دے تو رہے ہو عتاب و قہر کے ساتھ
مرا شباب بھی لوٹا دو میرے مہر کے ساتھ

وہ کہہ رہا ہے کہ لاؤں گا گھر میں سوتن کو
پلا رہا ہے وہ آبِ حیات زہر کے ساتھ

میں جا کے اُن کو اٹھا لائی اس کو محفل سے
وہ دیکھتی رہی مجھ کو نگاہِ قہر کے ساتھ

21-
گل سا پیکر سہی رقیبن کا
خار بن کر مری نظر میں رہی

22-
عشق پروان کس طرح چڑھتا 
بات ساری اگر مگر میں رہی

23-
جہاں ممکن نہ ہو اِک پان باجی
وہاں کیا جائیے مہمان باجی

24-
لگا کے آئی تھی سوتن خضاب عید کے دن
موئی پہ ٹوٹ پڑا تھا شباب عید کے دن

25-
تر نوالہ تو خود اڑاتی ہے
اور کھلاتی ہے مجھ کو دال بہو

26-
گھورا کرتا ہے پڑوسن ترا دولہا مجھ کو
دیکھ اچھا نہیں لگتا یہ طریقہ مجھ کو

27-
سوتن کا بس چلے تو وہ دو دو کو جنم دے
اس کلمہی کا پیٹ تو بچوں کی کان ہے

ہے شے کو تالے کنجی میں رکھتی ہے رات دن
سجنیؔ تمہاری ساس بڑی بدگمان ہے

28-
جاذبِ نظر تھے نقش جو
نذرِ ماہ و سال ہو گئے

29-
رنڈیاں آئیں، ہُوا ناچ، چلے جام پہ جام
میں تو میکے میں تھی کیا کیا نہ ہوا میرے بعد

30-
وہ مجھ سے روز پڑوسن کی بات کرتے ہیں
کچھ اس میں دال میں کالا دکھائی دیتا ہے

31-
نظر میں ان کی جو کچھ بے رُخی لگے ہے مجھے
یہ ساری سَوت کی کاریگری لگے ہے مجھے

32-
چاہا کس نے کسے عمر بھر
چار دن کے ہیں سب چوچلے

33-
مجھ گھور کر اس طرح سے نہ دیکھو
میں غیرت کے مارے موئی جا رہی ہوں
یہ کیسی ہے صاحب نگاہوں میں گرمی
پسینے پسینے ہوئی جا رہی ہوں

34-
بھلی چنگی تھی قبل شادی کے
زندگی جان کا وبال ہوئی
عید قرباں کے روز عقد ہوا
ہائے میں بِن چھری حلال ہوئی