شاہ نیاز بریلوی کا تعارف اور اشعار
مشہور صوفی اور باکمال شاعر حضرت شاہ نیازؔ احمد بریلوی اپنے عہد میں یگانہ و روزگار تھے۔ ان کی ذات مرجع خاص و عام تھی۔ فارسی اور اُردو شاعری میں ان کی نمایاں حیثیت مسلم ہے۔ اس لیے اکثر بلند پایہ تذکروں میں ذکر موجود ہے۔
تصوف کی طرح شاعری بھی بقول شبلی نعمانی ذوق اور وجدانی چیز ہے۔ اور شاہ نیاز کی طبیعت قدرت کی طرف سے سوز و گداز اور ذوقِ وجدان سے مالا مال تھی۔ عشقِ حقیقی سے ان کا خمیر بنا تھا اور دردِ عشق ہی ان کا سرمایۂ حیات تھا۔ شاعری ان کا پیشہ نہ تھا تفریح کا مشغلہ بلکہ جب جذبات کا طوفان امنڈتا تو شعر کے قالب میں ڈھل جاتا تھا۔ کلام بہت کم ہے لیکن جو کچھ ہے انتخاب ہے اور ذوق و وجدان کا عکس ہے۔ تاثیر کی شدت سب سے نمایاں اور امتیازی خصوصیت ہے اور یہ ان کی جذبہ کی صداقت کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ دل کی گہرائیوں سے نکلا ہوا کلام دل پر اثر کرتا ہے۔ ساتھ جامعیت اور افادیت کی خوبیاں اپنی جگہ اہم ہیں۔ ذیل میں حضرت کfے اشعار اور غزلیں پیشِ خدمت ہیں:
1-
اک تُو ہی نہیں میں بھی ہوں اُن آنکھوں کا مارا
اے اہلِ نظر نرگسِ بیمار ہے کہہ دو
2-
مبارک رہے تجھ کو واعظ بہشت
میاں! ہم تو طالب ہیں دیدار کے
3-
عجب کیا جو تشریف لاؤ ادھر
عیادت کو آتے ہیں بیمار کے
4-
کس کام کی یہ ہستیِ موہومِ کائنات
سیراب کب کرے تجھے دھوکا سراب کا؟
5-
اے دل جنابِ قدس میں تُو کب رسا ہوا
دنیا کے پھیر میں ابھی تُو ہے پھنسا ہوا
گھر کو تو اپنی ہستی کے ویران کر نیازؔ
ہستی سے حق کی پھر وہ رہے گا بسا ہوا
6-
کیا جانے کس کی گھات میں نکلا کسا ہوا؟
وہ شوخ ہاتھ قتلِ جہاں پر رسا ہوا
اپنا تو ملک دل ہے کبھی سے اُجڑ گیا
لیکن چراغِ داغ سے کچھ ہے بَسا ہوا
7-
مارا تمہاری زلف کا ہرگز نہ بچ سکے
سو بار بچ رہا جو یہ افعی ڈسا ہوا
8-
عشق میں آ عجب مزا دیکھا
خویش و بیگانہ آشنا دیکھا
9-
یار کو ہم نے جا بجا دیکھا
کہیں ظاہر، کہیں چھپا دیکھا
10-
کہیں رقاص اور کہیں مطرب
کہیں وہ ساز باجتا دیکھا
11-
تو نے اپنا جلوہ دکھانے کو، جو نقاب منھ سے اٹھا دیا
وہیں محوِ حیرت و بے خودی، ہمیں آئینہ سا بنا دیا
12-
جبھی جا کے مکتبِ عشق میں، سبقِ مقامِ فنا دیا
جو لکھا پڑھا تھا نیازؔ نے، سبھی ایک پل میں بھلا دیا
13-
اے دل کہیں نہ جائیو زنہار دیکھنا
اپنے ہی بیچ یار کا دیدار دیکھنا
خُوباں کا اس جہاں کے تماشا جو تُو کرے
آئینہ دار طلعتِ دل دار دیکھنا
اے دل قمارِ عشق میں ٹک دیکھیو سنبھل
بازی نہ دیجیو ہار مرے یار دیکھنا
گر نقدِ جاں طلب کرے، وہ شوخ دلربا
انکار واں نہ کیجیو زنہار دیکھنا
ہرگز دَوا نہ کیجیو، اس غم کی اے نیازؔ
سب راحتوں سے اس کو مزیدار دیکھنا
14-
دشت پیمائی سے ہے اپنی بیاباں نازاں
اپنی پاپوش سے ہے خارِ مغیلاں نازاں
چاک ہاتھوں سے ہے جیب، اشکوں سے تر ہے دامن
جیب نازاں ہے یہاں، اور وہاں داماں نازاں
15-
پھول کترے ہیں کیا عجیب و غریب
کون ہے دستکار آنکھوں میں
16-
کچھ نہیں کھلتا مجھے میں کون ہوں
صورتِ حیرت ہوں یا شکلِ جنون؟
آہ طالع نے مجھے رُسوا کیا
ورنہ پنہاں تھا مرا رازِ دروں
17-
اگرچہ میں سیرِ بُتاں دیکھتا ہوں
ولے جلوۂ حق عیاں دیکھتا ہوں
19-
رواں آنکھوں سے ہے سیلابِ گلگوں
الٰہی چشم ہے، یا چشمۂ خُوں
جو شیریں تجھ کو دیکھے کوہ کن ہو
اگر لیلیٰ ہو، یاں ہو جائے مجنوں
علی مرتضیٰ ختم الرُسُل ہے
نیازؔ ایسے ہیں جُوں موسیٰؑ کے ہاروںؑ
20-
عشق ستاتا ہے کیوں آ مجھے ہر آن تُو
میرے تو آرام کا، لے گیا سامان تُو
صبر و قرار و شکیب تاب و تواں عقل و دیں
سب نے تو لی اپنی راہ، رہ گئی کیوں جان تُو
21-
جورِ بُتاں سے مجھ کو اِلٰہی بچائیو
پیدا ہوئے ہیں جان کے خواہاں نئے نئے
میں اس طرح جنوں ترے ہاتھوں سے تنگ ہوں
لاؤ کہاں سے روز گریباں نئے نئے
22-
صنم ہے، گلد بدن ہے، مہ جبیں ہے
بھلا کہیے وہ کیا کیا کچھ نہیں ہے
وہ سب جا ہے، وہ کس جاگہ نہیں ہے
غرض اس کو جہاں دیکھو، وہیں ہے
23-
ستارے نہیں یہ شبِ تار کے
شرارے ہیں آہِ شرر بار کے
24-
چھٹا ہاتھ سے چشمِ خونخوار کے
لیا زلف نے دام میں مار کے
یہ جنبش جو ابرو میں ہے یار کے
سو جھڑتے ہیں وہ ہاتھ تلوار کے
-
Tags:
شاہ نیاز بریلوی