Yadgar-e-Ghalib یادگار غالب by Altaf Hussain Hali Pdf
غالبؔ کی شاعرانہ عظمت اور برگزیدگی کا احساس اس کے ہمعصروں کو ضرور تھا۔ انہوں نے مختلف طریقوں سے اس کا اظہار بھی کیا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی زندگی میں یہ صورتِ حال کم و بیش خواص کے حلقے تک ہی محدود رہی۔ جسے ہم قبولیت عامہ کہتے ہیں وہ جیتے جی انہیں کم نصیب ہوئی۔ البتہ آخری ایام میں ان کے کلام کے بار بار چھپنے سے یہ خیال ہوتا ہے کہ شاید اب عوام کا پڑھا لکھا طبقہ بھی ان کی نظم و نثر میں دلچسپی لینے لگا تھا۔
حالی 1837ء تا 1914ء غالب کے شاگرد تھے۔ وہ جب پہلی بار 1854ء میں تعلیم کی غرض سے دلی آئے تو یہاں ان کی ملاقات غالب سے ہوئی۔ جیسا کہ انہوں نے خود لکھا ہے، وہ ان ایام میں اکثر میرزا کی خدمت میں حاضر ہوتے، اور ان کے اردو فارسی کلام کے مشکل مقامات ان سے حل کراتے؛ بلکہ میرزا نے اپنے چند فارسی قصیدے انہیں سبقاََ سبقاََ پڑھائے بھی تھے۔ حالی اسی زمانے میں شعر بھی کہنے لگے تھے اور جب انہوں نے صلاح کے طور پر اپنا کلام غالب کو دکھایا تو غالب نے ان سے کہا "اگرچہ میں کسی کو فکرِ شعر کی صلاح نہیں دیا کرتا، لیکن تمہاری نسبت میرا یہ خیال ہے کہ اگر تم شعر نہ کہو گے تو اپنی طبیعت پر ظلم کرو گے۔"
یادگارِ غالب الطاف حسین حالی نے غالب کی سوانح عمری کے لیے نہیں لکھی تھی ان کے نزدیک یہ ثانوی بات تھی؛ اصل میں وہ غالب کے شعری اور ادبی حیثیت اور اس میدان میں ان کی بلند پایگی نمایاں کرنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ "یادگارِ غالب" ادبِ اردو کی بہت اہم ترین کتابوں میں شمار کی جاتی ہے۔
Tags:
الطاف حسین حالی