غالب کے خطوط از خلیق انجم (5 جلدیں) pdf

غالب کے خطوط از خلیق انجم (5 جلدیں) pdf
غالبؔ نے اردو خطوط ضرورتاََ لکھنا شروع کیے تھے۔ لیکن خطوط نویسی میں اظہار کے امکانات نے بہت جلد ان کے اندر چھپے ہوئے ان فنکار کو جگا دیا جو ردیف و قافیے کو مشقت سے تھک کر سو گیا تھا۔ پچاس برس کے بعد فنکار کے ذہن، جذبے اور فکر میں ہونے والی وہ تبدیلیاں جو تخیلقی عمل کے راستے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں، نثر کے اس نئے وسیع اور کشادہ میدان میں غالبؔ کے لیے بہت بڑا اثاثہ ثابت ہوئیں۔

غالبؔ کے خطوط کی نثر میں صرف منطقی استدلال ہی نہیں بلکہ اس میں ٹھہرا ہوا جذبہ اور ایک منفرد طرزِ فکر و احساس ہے جو موجِ تہ نشیں کی طرح جاری و ساری نظر آتا ہے۔ ان خطوط میں غالبؔ کی خلاقانہ صلاحیت، اور نثر کے ہم آہنگ متوازن شاعرانہ صناعی بھرپور امکانات کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ ان میں تجربات اور احساسات کی رنگا رنگی ہے۔ اجتماعی تجربے بھی ہیں اور ذاتی وارداتیں بھی۔ ایک فرد کی آواز بھی ہے اور پورے عہد کی گونج بھی۔

خطوطِ غالبؔ اُس عہد کے ہندوستان کی تاریخ میں رونما ہونے والی اہم ترین سیاسی، سماجی اور تہذیبی فکری اور جذباتی تبدیلیوں کا رد عمل بھی ہیں اور ایک فرد کی مایوسیوں، شکستوں اور ناکامیوں کی داستان بھی۔ غرض انسان کی روزمرہ زندگی اور اس کے مسائل کی گونج بھرپو طریقے پر اردو نثر میں پہلی بار خطوطِ غالب ہی میں سنائی دیتی ہے۔

غالبؔ نے شاعری میں اپنی ایک تخیلی اور مثالی شخصیت کا بُت تراش رکھا تھا۔ لیکن خطوط میں ہمیں جو شخصیت نظر آتی ہے اُس میں انسانی کردار کی بلندی بھی ہے اور پستی بھی۔ خودداری و خود نگری بھی ہے اور خوشامد، تملق اور دریوزہ گری بھی۔ حق و صداقت بھی ہے اور دروغ گوئی و مصلحت کوشی بھی۔

دل پھر طوافِ کوے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے

وہ غالبؔ جو شاعری میں پوری کائنات سے مبارزہ طلب ہے اور ہر بڑی طاقت سے نبرد آزما ہے، خطوط میں اپنی معمولی ضرورتوں اور احتیاجوں کے حصار میں گرفتار نظر آتا ہے، وہ اہلِ ثروت کے سامنے کاسہء گدائی لیے کھڑا ہے۔ نواب کلب علی خاں کے دربار میں گڑگڑا کر دعائیں دے ر ہا ہے۔ کبھی کہتا ہے کہ "خدا حضرت کو سلامت رکھے، مجھ سے اپاہج نکمے کو بہ عوضِ خدمت تنخواہ دیتے ہو" اور کبھی عرض کرتا ہے "مختصر یہ کہ اب میری جان اور آبرو آپ کے ہاتھ ہے مگر حضور، جو عطا فرمانا ہے جلد ارشاد ہو:

بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں کہ ہم
اُلٹے پھر آئے، درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا

شاعری میں خود بینی و خودداری کا یہ عظیم تصور پیش کرنے والا انسان انگریزوں کے ہندوستانی منشی کی خوشامد میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتا ہے۔ غلام غوث خان بےؔخبر دوسرے بلکہ تیسرے درجے کے شاعری ہیں۔ چوں کہ صوبہ غرب و شمال کے لفٹنٹ گورنر کے میر منشی ہیں؛ غالبؔ انہیں لکھتے ہیں: 
"اودھ اخبار میں حضرت کی غزل نظر فروز ہوئی۔ کیا کہنا ہے۔ ابداع اس کو کہتے، جدت طرازی اس کا نام ہے۔ جو ڈھنگ تازہ نوایانِ ایران کے خیال میں نہ گزرا تھا، وہ تم بروئے کار لائے۔"
غالب بنیادی طور پر شاعر تھے اور شاعری میں زبان کے استعمال پر انہیں غیر معمولی قدرت حاصل تھی۔ اس لیے لفظ ان کے ہاں "گنجینۂ معنی" کا طلسم ہے۔ غالبؔ کی فکر، احساس اور جذباتی کیفیتیں ان کے ہم عصروں کے مقابلے میں زیادہ گہری اور پیچیدہ ہیں، غالبؔ کے عہد کی مروجہ تخلیقی زبان ان کا ساتھ نہیں دے پائی، اس لیے ان کے ڈکشن پر فارسی کے گہرے اثرات موجود ہیں۔ اپنی بات کو مؤثر طریقے سے کہنے کے لیے شاعری میں غالبؔ تمثیلوں، علامتوں، تشبیہوں اور استعاروں کے استعمال میں غیر معمولی جدت سے کام لیتے ہیں۔ ان کی اسی شاعرانہ ادا نے ان کے اردو خطوط کی نثر کو بھی پُر لطف بنا دیا ہے۔ اردو خط لکھتے ہوئے اگرچہ غالبؔ عام بول چال اور روزمرہ کی زبان استعمال کرتے تھے لیکن اپنی بات کہنے کے لیے وہ ایسی تشبیہوں اور استعاروں کو بھی کام میں لاتے ہیں، جن کے استعمال سے ان کا اظہار زیادہ مؤثر، معنی خیز، تہہ دار اور شگفتہ ہو جاتا ہے۔ یہ تشبیہیں اور استعارے روایتی بھی ہوتے ہیں اور غیر روایتی بھی۔ غیر روایتی تشبیہوں اور استعاروں میں سے اکثر خود غالبؔ کی جدت پسند طبیعت کی اپچ کا نتیجہ ہوتے ہیں۔

Dr. Khaliq Anjum's work is a work with a difference and the first of its kind in the sub continent ..... To say the least "Ghalib Ke Khatoot" edited by Khaliq Anjum is an encyclopedia of Ghalib."
(Prof. Jagan Nath Azad, Kashmir Times, Srinagar, July 3, 1984) {alertInfo}