تیسرے پہر کی کہانیاں از اسد محمد خاں
اسد محمد خان تاریخی اعتبار سے بیسویں صدی کے آخری رُبع میں ہمارے افسانوی منظر نامے کا ایک ایسا نام ہے جس کے فن کارانہ طرزِ احساس اور تخلیقی شعور کو ثقافتی تناظر سے منہا کر کے سمجھنا ممکن نہیں۔ اس لیے اسد محمد خان کے افسانے اپنی اوپری سطح پر اظہار و ابلاغ کا کتنا ہی ڈرامائی، سہل اور رواں دواں اسلوب کیوں نہ اختیار کریں، یہ واقعہ ہے کہ یہ افسانے تہ در تہ معنویت کا ایک گھبمیر اور پچیدہ سلسلہ رکھتے ہیں۔ ایک فن کار صرف اپنے موضوعات اور مسائل کی وجہ سے بڑا نہیں بنتا ہے بلکہ اس کی بڑائی میں اس کے اسلوب اور طرزِ احساس کا بھی اتنا ہی حصہ ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اس کا اسلوب اور طرزِ احساس نہ صرف معنویت کی متنوع سطحوں کا حامل ہوتا ہے بلکہ ابلاغ و تفہیم کے بھی مختلف دائروں میں بیک وقت کام کرتا ہے۔
اسد محمد خان کے جہانِ افسانہ میں ہمیں رذیل اور کمینے لوگوں سے زیادہ واسطہ پڑتا ہے۔ اس کا کیا سبب ہے؟ بات یہ ہے کہ انسان کا خمیر اٹھا تو خیر سے ہے۔ لیکن اس کے ساتھ نفس کا جو لازمہ لگا ہوا ہے وہ بدی کو کسی لمحے اس سے الگ ہونے کا موقع فراہم نہیں کرتا ہے۔ ادب و فن کا کلاسیکی تصور انسان میں خیر کے عنصر کو غالب سمجھتا اور غالب پیش کرتا ہے جب کہ نئے ادب کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ خیر کا انکار تو نہیں کرتا لیکن یہ انسان کے اندر خیر کو غالب بھی نہیں سمجھتا۔
Tags:
اسد محمد خاں