شرح غزلیات غالب (فارسی) از صوفی غلام مصطفیٰ تبسم (دو جلدیں)

شرح غزلیات غالب (فارسی) از صوفی غلام مصطفیٰ تبسم (دو جلدیں)
بہت وقت نہیں گزار کہ ہمارے یہاں فارسی بطور سرکاری اور مجلسی زبان مروج تھی۔ انگریز اور انگریزی کے آ جانے سے یہ نقشہ بدل گیا۔ فارسی کا عام فہم نہ رہا اور ہمارے لیے ایک اجنبی زبان بن کر رہ گئی۔ غالبؔ وقت میں خسروؒ اور فیضی وغیرہ کی نسبت ہم سے نزدیک تر ہے اور قدیم کے ساتھ ساتھ جدید مسائل پر بھی کہیں کہیں نظر ڈالتا ہے۔ کلامِ غالب میں قدیم عرب و عجم اور روم و یونان کے اساطیر و توہمات اور تصورات و مسائل کے ساتھ ساتھ ہمیں ہند و فرنگ سے اپنی آویزشوں پر شاعرانہ اشارے ملتے ہیں۔ غالب کی شاعری میں جو ترکیبوں کی نیرنگی، تصویر نگاری، الفاظ کی نغمگی اور وارداتِ عاشقی کی نفسیات ملتی ہیں وہ ذوقِ سلیم کو وجد و اہتراز میں لانے والی ہیں۔ جو خوش قسمت شخص شعرِ غالبؔ سے کسبِ لذت کرتے ہوئے اس سے اپنے احساسات، جذبات اور فکر کی تہذیب کرتا ہے وہ ایسی دولت کا مالک جسے زوال نہیں اور جو صحیح معنوں میں پاک و ہند کی ملتِ اسلامیہ کا وارث ہے۔ لیکن یہ بیش بہا خزانہ فارسی زبان جانے بغیر نہیں ملتا۔ اس لیے کہ کہنا ایک سچائی ہوگی کہ غالب کے فارسی اشعار کا ترجمہ اور تشریح ایک بہت بڑی ملی خدمت تھی جو صوفی تبسم مرحوم نے ہمارے زمانے میں انجام دی۔

ما و خاکِ رھگذر بَر فَرقِ عُریاں ریختن
گل کسے جُوید کہ اُو را گوشۂ دستار ہست
(پرانے زمانے میں لوگ دستار پہنتے تھے اور زینت کے لیے پھول دستار کے ایک طرف ٹانک لیتے تھے۔ عاشق کو دستار کہاں نصیب ہوتی ہے اور وہ وحشتِ جنوں میں ادھر ادھر گھوم رہا ہے اور رہگذر کا غبار سر پر پڑ رہا ہے۔) {alertInfo} 
2 Volumes Download