کافکا کے افسانے انتخاب و ترجمہ نیر مسعود

کافکا کے افسانے انتخاب و ترجمہ نیر مسعود
3 جون 1924ء کو جب فرانز کافکا کی وفات ہوئی تو اسے کوئی بڑا ادبی سانحہ نہیں سمجھا گیا۔ اس وقت تک وہ جرمن زبان کا ایک غیر معروف سا افسانہ نگار تھا جس کی تحریریں اپنے نہایت واضح بیانیہ انداز کے باوجود مفاہیم کے اعتبار سے اہمال کی حد تک مبہم تھیں اور ان کی تعداد بھی زیادہ نہیں تھی۔ اس نے کچھ غیر مطبوعہ تحریریں بھی چھوڑی تھیں لیکن اس وصیت کے ساتھ کہ ان کا ایک ایک حرف پڑھے بغیر جلا دیا جائے۔ اس وصیت پر عمل نہیں کیا گیا اور نہ صرف یہ تحریریں بلکہ ان کے وہ جملے اور الفاظ بھی چھاپ دیے گئے جن کو اس نے قلم زد کر دیا تھا یا بدل دیا تھا۔

بیس سال کے اندر اندر ان تحریروں میں چھپے ہوئے آسیب نگاہوں کے سامنے آنے لگے۔ ہٹلر کے ناتسی جرمنی کو یہ آسیب اپنی بنیادیں ہلاتے محسوس ہوئے اور ان تحریروں کی اشاعت ممنوع قرار دے دی گئی؛ مگر اس وقت بھی یہ سمجھنا مشکل تھا کہ کافکا کا شمار جدید ادب پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی شخصیتوں میں ہو جائے گا، یہاں تک کہ اشتراکی دنیا بھی ایک مدت تک اس کو نظر انداز کرنے کے بعد اسے غور سے پڑھنا شروع کر دے گی۔ 

اس وقت کافکا کو دستوئیفسکی کی طرح ادبیات میں پچیدہ ترین دماغ کا مالک سمجھا جاتا ہے۔ اس کی تحریروں کو مذہبی و روحانی، صوفیانہ، فلسفیانہ، مابعد الطبیعیاتی، سماجی، اخلاقی، نفسیاتی، جنسی تاویلیں کی جا رہی ہیں اور اس کی تحریروں میں ہر تاویل کا جواز موجود ہے۔ خود کافکا ان تحریروں کو اپنی خواب نما باطنی زندگی کی عکاسی قرار دیتا ہے اور تاویلیں اب تک اس باطنی زندگی کو پوری طرح گرفت میں نہیں لا سکی ہیں۔ اتنا البتہ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ کافکا کی یہ باطنی زندگی اس کی ظاہری زندگی سے بہت مختلف ہے۔