فردوسی ناول از وحشی محمود آبادی

فردوسی ناول از وحشی محمود آبادی

نومبر 55ء میں لاہور کے زمانہ قیام میں ایک روز معظمی سید غلام عباس صاحب قبلہ سے فردوسیؒ کا ذکر آ گیا۔ موصوف نے مجھ سے فردوسی کے سوانح حیات پر کوئی افسانوی کتاب لکھنے کی فرمائش کی اور اپنی تحقیق کے مطابق بہت سی باتیں نوٹ کرائیں۔ ہندوستان پہونچ کر میں نے اس سلسلہ کی کئی کتب کا مطالعہ کیا اور واقعات میں راویوں کا اس قدر اختلاف پایا کہ قوتِ فیصلہ جواب دینے لگی۔ بالآخر علامہ شبلی نعمانی کی شعرالعجم کو رہبر بنانا پڑا مگر بعض مقامات پر عقل نے علامہ مرحوم کی رائے سے اتفاق نہ کیا۔ اس لیے خود فردوسیؒ کی قیادت کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اور شاہنامہ کے چیدہ چیدہ اشعار سے داستان مرتب کرنا پڑی۔

جہاں تک شاہنامہ کی ابتداء کا تعلق ہے بلا شک و شبہ وہ طوس میں ہوئی۔ ایرانیوں کی وطنیت اور فردوسی کا مذاقِ سلیم اس کا محرک ہوا۔ آغازِ تصنیف کا سال قرائن سے 365 ہجری قرار پاتا ہے۔ کیونکہ فردوسی نے اپنے قول کے مطابق اَسّی سال کی عمر اور 400 ہجری میں شاہنامہ مکمل کیا۔ 
کنوں عمر نزدیک ہشتاد شد
امیدم بہ یکبارہ برباد شد

ز ہجرت شد پنج ہشتاد بار
کہ گفتم من ایں نامۂ شہریار

اور تصنیف میں پینتیس سال صرف ہوئے

سی و پنج سال از سرائے سپنج
بسے رنج بردم بہ امیدِ گنج

واقعات کے بارے میں نتیجہ اخذ کر کے قلم اٹھایا تو یہ دشواری سامنے آئی کہ افسانوی کردار اس انداز سے کھپائے جائیں کہ حقائق مسخ نہ ہونے پائیں۔ اس ضمن میں میں نے جتنی احتیاط کی ہے اس کا اندازہ تاریخ داں حضرات کر سکیں گے۔