گنجِ سوختہ شمس الرحمٰن فارقی

گنجِ سوختہ شمس الرحمٰن فارقی
گنجِ سوختہ (نظمیں، غزلیں)
شمس الرحٰمن فاروقی بلاشبہ زبان و ادب کے انتہائی متکلم اور وسیع النظر، وسیع المطالعہ نقاد ہیں۔ ان کی شخصیت کے ان گنت پہلو ہیں۔ شاعر جس پر نقاد حاوی ہے۔ لیکن جو اس کے باوجود شاعر سرگرم کار ہے۔ نقاد جو بیک وقت شعر۔ غیر شعر۔ نثر۔ عروضِ آہنگ۔ بیان۔ لفظ و معانی۔ فکشن، لغت سازی۔ میر و غالب، اقبال اور اردو زبان کے مختلف مسائل کے علاوہ یکساں طور پر یورپی ادب، عالمی ادب۔ مشرقی علوم۔ دور جدید، شعرِ جدید اور تمام مختلف النوع موضوعات پر حاوی ہے لیکن نثری "انجماد" کے خطرے سے بہر صورت محفوظ ہے۔ شمس الرحمٰن فاروقی کا ایک شعر ہے؛

سطح پہ تازہ پھول ہیں کون سمجھ سکا یہ راز
آگ کدھر کدھر لگی شعلہ کہاں کہاں گیا

"گنجِ سوختہ" میں نظموں کی ڈرافٹنگ قدرے پچیدہ ہے۔ سبز اندر سبز کے بعد کی نظموں تک پہنچتے پہنچتے پچیدگی رفتہ رفتہ کم ہوتی جاتی ہے، نظموں کے ڈھانچے سڈول ہوتے گئے ہیں، غزلوں رباعیوں میں بھی فاروقی جذبہ و فکر اور اظہارِ خیال کی شعوری آرائش سے آزاد ہوتے گئے ہیں اور تجسیم کے اس مرحلے پر ہیں جہاں شعر سرگوشیاں کرنے لگتا ہے۔ 

اِک آتشِ سیال سے بھر دے مجھ کو
اِک جشنِ خیالی کی خبر دے مجھ کو

اے موجِ فلک میں سر اٹھانے والے
کٹ جائے تو روشن ہو، وہ سر دے مجھ کو