آئینہ ایام قاضی عبدالستار کے بہترین افسانے

آئینہ ایام قاضی عبدالستار کے بہترین افسانے
قاضی عبدالستار کی پیدائش 9 فروری 1933ء میں سیتا پور (اودھ) کے ایک گاؤں میں ہوئی۔ قاضی عبدالستار نے تقریباََ تین درجن افسانے لکھے ہیں۔ یہ افسانے ان کے ناولوں کی طرح ہندوستان کے دیہات، شہر اور تاریخ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کے بیشتر افسانوں کا ترجمہ ہندوستان کی مختلف زبانوں میں ہو چکا ہے۔ قاضی صاحب کے افسانوں کی سب سے بڑی خوبی اس کی Authenticity  ہے۔ ان کی ہر کہانی کسی نہ کسی سچے واقعات پر مبنی ہوتی ہے۔ انہوں نے جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اسی پر افسانہ لکھا ہے۔ ان کا تعلق سیتا پور کے زمیندار گھرانے سے رہا ہے اس لیے زمینداروں کی زندگی کا تجربہ اور مشاہدہ انہوں نے بہت قریب سے کیا ہے۔ ان کے زیادہ تر افسانوں میں زمینداروں اور تعلقداروں کا کردار ہی بنیادی ہوتا ہے۔ 

قاضی صاحب کے افسانوں کو تین خانوں میں رکھا جا سکتا ہے۔ دیہات، شہر اور تاریخ۔ دیہات پر لکھے گئے مشہور افسانوں کے نام یہ ہیں۔ "روپا، سینگ، وراثت، کھا کھا، پیتل کا گھنٹہ، مالکن، رضو باجی، پرچھائیاں، نازو، بمواں لالہ، واپسی، دیوالی، ٹھاکر دوارہ، قد آدم مشعل، گھسو، میراث، دھندلے آئینے، گرم لہوں میں غلطاں، نومی اور سایہ۔ 

شہری زندگی سے متعلق افسانوں کے نام اس طرح ہیں۔ "سوچ، ماڈل ٹاؤن، پہلی موت، آڑے ترچھے آئینے، جنگل، ہمنشین، ایک دن، کتابیں، داغ اور تحریک۔ 

تاریخی موضوعات پر یہ افسانے لکھے ہیں "غادرہ، آنکھیں، نیا قانون، سات سلام اور بھولے بسرے۔"

شمس الرحمٰن فاروقی لکھتے ہیں کہ "قاضی صاحب Paradoxes کے بادشاہ ہیں۔ ان کا فن ایڈگر ایلن پو کی یاد دلاتا ہے۔ ان کے قلم میں گذشتہ عظمتوں اور کھوئے ہوئے ماحول کو دوبارہ زندہ کرنے کی حیرت انگیز قوت ہے۔ ان کی سب سے بڑی قوت ان کی حاضراتی صلاحیت ہے جو دو جملوں میں کسی مکمل صورت حال کو زندہ کر دیتی ہے۔ ایڈگر ایکن پو کی طرح اس سے انتہائی مختلف سیاق و سباق میں وہ نفسیات کو اجاگر کرنے کے بادشاہ ہیں"۔{alertInfo}