شعر شور انگیز از شمس الرحمٰن فاروقی
25 دسمبر 2020ء کو ہمارے عہد کے سب سے ممتاز ناقد شمس الرحمٰن فاروقی اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ "شعرِ شور انگیز" ہے۔ یہ خدائے سخن میر تقی میرؔ کے چھے دواوین کا اتنخاب اور شرح و تفسیر ہے۔ اس کتاب کو چار جلدوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
فاروقی صاحب کی تنقید نگاری کا وصف ان کی اجتہادی شان بھی ہے مگر کبھی ان کے فیصلے دو ٹوک ہوتے ہیں کہ صرف اس قطعیت کی وجہ سے ان سے اختلاف کرنے کو جی چاہتا ہے۔ کلامِ غالبؔ کی 36 مکمل شرحیں اور اتنی ہی جزوی شرحیں لکھی جا چکی ہیں مگر کلامِ میرؔ کی ایک شرح کی بھی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ حالانکہ یہ محض واہمہ ہے۔ میرؔ بھی خوب جی بھر کر صنائع لفظی و بدائع معنوی کا استعمال کرتا ہے۔ زبان کی نزاکتوں پر میرؔ کی نظر غالبؔ سے زیادہ گہری ہے۔ اس زمانے کی معاشرت اور تہذیب کی جھلکیاں بھی ان کے کلام میں ایسی ملتی ہیں کہ جو شخص آخر عہدِ مغلیہ کی تہذیب اور کاروبارِ زندگی سے اچھی واقفیت نہ رکھتا ہو میر کے اشعار سے پورا لطف اور لذت کشید نہیں کر سکتا۔ مثلاََ میرؔ کا ایک شعر ہے:
لے سانس بھی آہستہ کے نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا
ذیل میں شعرِ شور انگیز کی چار جلدیں مہیا کی گئی ہیں امید واثق ہے کہ کلام میر کے شیدائی ان سے بھرپور استفادہ کر سکیں گے۔
Tags:
شمس الرحمٰن فاروقی