مرقع دہلی درگارہ قلی خاں مرتبہ خلیق انجم

مرقع دہلی درگارہ قلی خاں مرتبہ خلیق انجم

"مرقعِ دہلی" عہدِ محمد شاہ میں تالیف ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نادر شاہ نے دلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ شاہی خزانے اور امرا اور رؤسا کی دولت کو سینکڑوں انٹوں پر لاد کر لے گیا تھا۔ مغل حکومت تقریباََ دو صدیوں میں کمائی ہوئی دولت و طاقت اور عزت و شوکت کھو چکی تھی۔ تختِ طاؤس اور کوہِ نور جیسی بیش قیمت اشیا پر نادر شاہ کا قبضہ ہو چکا تھا۔ جن عظیم بادشاہوں کا جاہ و جلال تاریخ میں ضرب المثل تھا ان کے وارث بے بسی اور لاچاری کی درد ناک تصویر بنے ہوئے تھے۔ جن طاقتوں نے ڈیڑھ سو سال کی لگاتار کوشش سے مغل حکومت کی بنیادوں کو ہلا دیا اور آخر کار 1857ء میں اس عظیم الشان عمارت کو ڈھا دیا ان میں روہیلے، مرہٹے، جاٹ، سکھ، اور انگریز سب ہی شامل تھے۔ انگریزوں کے علاوہ باقی تمام طاقتیں خود مغلوں کی سیاسی اور اقتصادی پالیسی کی پیدا کی ہوئی تھیں۔ یہ طاقتیں اور فرقے کس طرح پیدا ہوئے؟ کیوں بغاوت پر آمادہ ہوئے اور کس طرح انہوں نے ہندوستان سے مغلوں کا نام و نشان تک مٹا دیا۔ اس کا جواب صرف یہ نہیں کہ اورنگزیب کے بعد مغل تخت کے تمام وارثین نا اہل تھے۔ اس کے بہت سے اسباب تھے۔ ہندوستان کی اقتصادی حالت اس لیے خراب نہیں ہوئی تھی کہ یہ تمام واقعات رونما ہوئے تھے بلکہ اقتصادی نظام خراب ہونے کی وجہ سے ایسے واقعات ہوئے۔ مغل حکومت کے جاہ و حشم کا دار و مدار لگان کی صورت میں حاصل ہونے والی کثیر دولت پر تھا۔ اس لیے جب اکبر کی وفات کے بعد اس سے کم صلاحیتوں کا مالک جہانگیر تخت نشین ہوا تو مغل دربار کے شان و شکوہ میں ذرا بھی فرق نہ آیا بلکہ اور بھی ترقی کی۔ جہانگیر اور شاہجہان کے دربار کو رونق بخشنے والے غریب کاشتکار تھے۔ ان سے اتنا لگان وصول کیا جاتا تھا کہ وہ بہ مشکل تمام پیٹ بھر سکتے تھے۔ امرا و رؤسا کو تنخواہ کے بجائے اکثر جاگیریں ملتیں۔ بادشاہوں کی یہ بنیادی پالیسی تھی کہ کوئی علاقہ کسی جاگیردار کے پاس زیادہ عرصہ نہ رہے اس لیے وہ علاقے کی فلاح و بہبود کی طرف کبھی توجہ نہیں کرتے تھے۔ حکمرانوں کے اس ظلم اور ستم سے تنگ آ کر کاشتکاروں نے بغاوتیں شروع کر دیں۔ وہ لگان دینے سے انکار کر دیتے۔ شاہی فوجیں باغیوں کی سرکوبی کو جاتیں۔ چوں کہ یہ بغاوتیں بہت چھوتے پیمانے پر ہوتی تھیں۔ اس لیے باغیوں پر قابو پانا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ زمینداروں کو اپنی زمینداری بڑھانے کا موقع چاہیے تھا، اس لیے کاشت کاروں کی بغاوت سے انہوں نے پورا فائدہ اٹھایا۔ کاشتکاروں کو فنِ سپہ گری کی تربیت دی اور انہیں ضروری ہتھیاروں سے مسلح کیا۔ 

سکھ پنجاب کے جاٹ تھے۔ ان کا پیشہ بھی کاشتکاری تھا۔ مغل حکمرانوں کے ظلم و ستم نے انہیں بھی بغاوت پر مجبور کیا اور یہ کاشتکار ایک بڑی فوج کی صورت اختیار کر گئے۔ حکومت پوری کوشش کے باجود ان کی سرکوبی نہ کر سکی۔ مرہٹے بھی دکن کے کاشتکار تھے۔ 

کسی شخصی حکومت کے بدلنے کا عوام پر بہت کم اثر ہوتا ہے۔ لیکن مغل حکومت کا زوال عوام کا زوال تھا۔ زوال کی مسموم ہواؤں نے نہ صرف اس ہرے بھرے درخت کے سبز پتوں کو زرد کر دیا تھا بلکہ اس کی جڑوں تک میں زہریلے اثرات پھیلا دیے تھے۔ مغل بادشاہوں پر جو مصیبت آئی تھی، اس کا اثر امرا و رؤسا سے لے کر عوام تک سب پر برابر پڑ رہا تھا۔ 

عوام کی مالی حالت کتنی خراب تھی اس کا اندازہ بہت مشکل ہے۔ خود بادشاہ مفلسی کا شکار تھا۔ شاہ ولی اللہ نے شاہی ملازمین کے متعلق لکھا ہے۔ جب خزانہء بادشاہ نہیں رہا تو نقدی بھی موقوف ہوگئی۔ آخر کار سب ملازمین تتر بتر ہو گئے اورکاسۂ گدائی اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ سلطنت کا بجز نام اور کچھ باقی نہیں رہا۔ سلطنت کے متعلق تقریباََ یہی الفاظ سید غلام حسین خاں طبا طبائی کے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
"محمد شاہ کی وفات کے بعد سلطنت کا صرف نام باقی رہ گیا ہے اور کچھ نہیں"۔