دلی جو ایک شہر تھا ۔ شاہد احمد دہلوی

دلی جو ایک شہر تھا ۔ شاہد احمد دہلوی

دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
ہم رہنے والے ہیں اُسی اُجڑے دیار کے
(میر تقی میر)

ان مضامین میں اس دلی کی معاشرتی اور تہذیبی جھلکیاں پیش کی گئی ہیں جو 1947ء تک قائم تھی۔ ہنگامہ 18557ء کے بعد دلی کی اینٹ سے اینٹ بج گئی تھی۔ بوڑھے بادشاہ کو قید کر کے رنگون بھیج دیا گیا تھا اور دلی کے مسلمان شرفا چن چن کر توپ دم کر دیے گئے تھے۔ ان مرنے والوں کے ساتھ دلی کی وہ تہذیب بھی مر گئی جو مسلمانوں کے دم قدم کی برکت سے صدیوں میں بنی تھی۔ معافیوں کے بعد بچے کھچے دلی والے جب واپس اپنے شہر میں آئے تو اسے ویرانہ پایا۔ انہوں نے اس کھنڈر ہی کو اللہ عزیز کر لیا اور رفتہ رفتہ دلی نے اپنی عظمتِ رفتہ پھر حاصل کر لی۔ 

دِلی کی ایک مخصوص تہذیب تھی جو عروج و زوال کے تانے بانے سے بنتی بگڑتی رہی۔ اس کے ہر بگاڑ میں ایک سنوار تھا۔ 1947ء میں دِلی کو غسلِ خونی دیا گیا۔ اس سے دلی کی آبادی تو دگنی ہو گئی مگر وہ تہذیب اور وہ معاشرت غارت ہو گئی جس پر دِلی کو ناز تھا اور جس سے دلی کی انفرادیت قائم تھی۔ 

Ad blocker detected!

We have detected that you are using adblocking plugin in your browser.
The revenue we earn by the advertisements is used to manage this website, we request you to whitelist our website in your adblocking plugin.