شرح کلیات غالب فارسی مع اردو ترجمہ از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی

مپرس وجہِ سوادِ سفینہ ہا غالبؔ
سخن بہ مرگِ سخن رس سیاہ پوش آمد

(غالب میری بیاضوں کی سیاہی کی وجہ مت پوچھ کہ میری شاعری سخن رس اور سخن شناس لوگوں کی موت پر سیاہ ماتمی لباس پہنے ہوئے آئی ہے۔)

بوسم لبِ دلدار و گزیدن نتوانم
نرم است دلم حوصلہ کام ندارد
(میں محبوب کے ہونٹوں کو چومتا تو ہوں لیکن انہیں دانتوں سے کاٹ نہیں سکتا۔ اصل بات یہ ہے کہ اپنی خواہش تو یہی ہے لیکن میرا دل اتنا نرم ہے کہ اپنی یہ خواہش پوری کرنے کا مجھ میں حوصلہ نہیں۔) یہ بھی پڑھیں: (غالب ناول از قاضی عبدالستار)

مرزا غالبؔ کو اپنے فارسی کلام کے ساتھ ایرانی تہذیب و ثقافت، فارسی زبان اور اس کے شعراء ادبا سے غیر معمولی دلچسپی تھی جس کا اظہار ان کی بہت سی تحریروں سے ہوتا ہے۔ اسی شوق و شغف کے ساتھ وہ فارسی ادبیات کو وہ اپنی میزان قدر میں بڑا درجہ دیتے ہیں اور ہندوستان ک شاعر و ادیب باستثناء خسرو اور بیدلؔ ان کے نزدیک اعتبار سے محروم ہیں۔ 
غالبؔ کے فارسی کلام کو اعتراف اور احترام کی نظر دیکھا جاتا ہے لیکن اس پر کام بہت کم ہوا۔ غالب کی فارسی شاعری میں ان کے قصائد، غزلیات، ان کی مثنویات اور قطعات کو خاص طور پر دخل ہے۔ 
غالبؔ نے اگرچہ ایران کے فارسی شعرا کی اتباع کی لیکن ان کو وثوق کے ساتھ کسی کا شاگرد نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اردو شاعری میں غالبؔ نے میر تقی میر اور شیخ امام بخش ناسخ کی پیروی کی لیکن فارسی شاعری میں وہ کسی کی پیروی تسلیم نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ اس میں اپنے ذوقِ فطری کو ہی سبب تحریک قرار دیتے ہیں۔ غالب اردو کی بجائے اپنے فارسی کلام کو ہی گرانقدر سمجھتے تھے۔ غالب کو اس بات کا بہت دکھ تھا کہ لوگوں نے ان کو ان کے فارسی کلام کی داد نہیں دی۔ فارسی کلام کی قدر شناسی نہ ہونے کے نتیجے میں غالب سرزمینِ ہند سے دلبرداشتہ ہوئے تھے اور وہ اس بات کی تمنا کرتے تھے کہ وہ اصفہان میں زندگی بسر کریں اور نجف میں دفن ہوں۔

غالبؔ از ہندوستان بگریز فرصت مفت تست
در نجف مردن خوش است و در صفاہان زیستن