انتخاب نظیرؔ از ناصر کاظمی

انتخاب نظیرؔ از ناصر کاظمی

"ولی محمد نام، نظیرؔ تخلص، 1735ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام محمد فاروق تھا۔ 1761ء میں احمد شاہ ابدالی نے جب دلی پر حملہ کیا تو نظیرؔ آگرہ چلے گئے اور وہیں کے ہو رہے۔ 1830ء میں وہیں انتقال کیا۔ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ نظیرؔ کا کلام کتنا تھا کیونکہ انہوں نے زندگی میں کبھی اپنا کلام جمع نہیں کیا۔ فارسی میں بھی شعر کہتے تھے اور فارسی نثر میں نو کتابیں لکھیں۔"

ولیؔ سے لے کر آج تک اردو شاعری کو مختلف ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے لیکن ہماری کلاسیکی شاعری میں نظرؔ اکبر آبادی ایک ایسے منفرد شاعر ہیں جنہیں کسی ایک مخصوص دور یا کسی خاص تحریک کے ساتھ منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ 

نظیر یوں تو نظم کے شاعر ہیں لیکن انہوں نے غزل کو بھی نہیں چھوڑآ۔ غزل اپنی بعض پابندیوں کی وجہ سے ایک ٹھوس اور کٹر صنفِ شعر ہے لیکن غزل میں بھی نظیرؔ نے اپنے رنگ کو برقرار رکھا ہے ان کی یہ غزل دیکھیے

عیش کر خوباں میں اے دل شادمانی پھر کہاں
شادمانی گر ہوئی تو زندگانی پھر کہاں

نظیرؔ کو مجموعی طور پر ایک عرصے تک باوقار سنجیدہ شاعری کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا جاتا رہا ہے لیکن پروفیسر سید محمد عبدالغفور صاحب نے اپنی کتاب "زندگانیِ بے نظیرؔ" لکھ کر ان کی شاعری کی طرف توجہ دلائی اور آج نظیرؔ کو اردو کے ایک اہم اور بڑے شاعروں کی صف میں جگہ دی جاتی ہے۔ بقول ڈاکٹر فیلن "نظیرؔ ہی ایک ایسا شاعر ہے جس کی شاعری اہلِ فرنگ کے نصاب کے مطابق سچی شاعری ہے۔ 

نظیرؔ کی غزلیں حسن و رنگ، مسرت و طرب، سرشاری اور سرخوشی کی نوید ہیں جو ملول لمحوں کو مسرور بنا دیتی ہیں۔ 

1-
نظیرؔ آگے ہم کو ہوس تھی کفن کی
جو سوچا تو ناحق کا دیوانہ پن تھا

2-
اُس نے کوئی دن بیٹھ کے آرام سے کھایا
وہ مانگتا در در خیرات تو پھر کیا

3-
چاہت ہماری تاڑتے ہیں واں کے تاڑ باز
تس پر ہنوز خوب طرح دل لگا نہ تھا

4-
کیا کیا دلوں میں ہوتی تھی بن دیکھے بیکلی
ہے کل کی بات حیف کہ ایسا زمانہ تھا

5-
ساقی ظہورِ صبح و ترشح ہے نور کا
دے مے یہی تو وقت ہے نور و ظہور کا

6-
کوچے میں اُس کے جس کو جگہ مل گئی وہ پھر
مائل ہوا نہ صحنِ چمن کے سرور کا

سیماب جس کو کہتے ہیں سیماب یہ نہیں
دل آب ہو گیا ہے کسی ناصبور کا

7-
بوسے کے عوض ہوتے ہیں دشنام سے مسرور
اتنا تو کرم ہم پہ بھی ہے یار کے لب کا

8-
یار کے مے گوں چشم نے اپنی ایک نگہ سے ہم کو نظیرؔ
مست کیا، اوباش کیا، رند کیا، بدنام کیا

9-
آنکھوں میں میری صبحِ قیامت گئی جھمک
سینے سے اُس پری ک جو پردہ الٹ گیا

آخر اسی بہانے ملا یار سے نظیرؔ
کپڑے بلا سے پھٹ گئے سودا تو پٹ گیا

10-
ناتوانی کا بھلا ہو جو ہوا مجھ کو نصیب
اُس کی دیوار کی اینٹوں کو رگڑ کر چلنا

چلتے چلتے نہ خلش کر فلکِ دوں سے نظیرؔ
فائدہ کیا ہے کمینے سے جھگڑ کر چلنا

11-
ادائیں بانکی عجب طرح کی، وہ ترچھی چتون بھی کچھ تماشا
بھنویں وہ جیسے کھنچی کمانیں، پلک سناں کش نگاہ بھالا

نگہ لڑائی ہے اس نے جس دم، جھٹک لیا جھپ تو دل کو میرے
ادا ادا نے ادھر دبوچا پلک پلک نے ادھر اچھالا

12-
دیکھ اب تو مجھے ہرکوئی کہتا ہے یہی آہ
"پھر قبر سے اللہ نے مجنوں کو نکالا"

"مرمر" مجھے کہتا تھا سو مرتا ہوں میں یارو
اب لاؤ، کہاں ہے وہ مرا کوسنے والا

13-
شاید وہی بن ٹھن کے چلا ہے کہیں گھر سے
ہے یہ تو اُسی چاند سی صورت کا اُجالا

لے لے کے بلائیں مجھے یہ کہتی ہیں آنکھیں
"صدقے ترے" پھر ایک نظر مجھ کو دِکھا لا

صحرا میں مرے حال پہ کوئی بھی نہ رویا
گھر پھوٹ کے رویا تو مرے پاؤں کا چھالا

14-
تھا ارادہ تری فریاد کریں حاکم سے
وہ بھی اے شوخ ترا چاہنے والا نکلا

جی کی سب دھوم تھی جب تن وہ نکلا تو نظیرؔ
پھر نہ سینے سے اُٹھی آہ نہ نالا نکلا

15-
عبث محنت ہے کچھ حاصل نہیں پتھر تراشی سے
یہی مضمون تھا فرہاد کے تیشے کی کھٹ کھٹ کا

16-
دیکھ لے اس چمنِ دہر کو دل بھر کے نظیرؔ
پھر تِرا کاہے کو اس دہر میں آنا ہوگا

17-
گر ہم نے دل صنم کو دیا پھر کسی کو کیا
اسلام چھوڑ کفر لیا پھر کسی کو کیا

آپی کیا ہے اپنے گریباں کو ہم نے چاک
آپی سیا سیا نہ سیا، پھر کسی کو کیا

اُس بے وفا نے ہم کو اگر اپنے عشق میں
رُسوا کیا، خراب کیا، پھر کسی کو کیا

18-
شہرِ دل آباد تھا جب تک وہ شہر آرا رہا
جب وہ شہر آرا گیا پھر شہرِ دل میں کیا رہا

کیا رہا پھر شہرِ دل میں جُز ہجومِ درد و غم
تھی جہاں فوجِ طرب، واں لشکرِ غم آ رہا

19-
تارِ نگہ ہمارا ہے آج تک بھی رنگیں
کل ہم نے ایک ایسے گل پیرہن کو دیکھا
20-
جس کام کو جہاں میں تُو آیا تھا اے نظیرؔ
خانہ خراب تجھ سے وہی کام رہ گیا

21-
کل مجھ سے ہنس کے اُس گلِ خوبی نے یوں کہا
پاؤں میں تُو ہی آج تو میرے رَچا حِنا

وہ چھوٹی پیاری انگلیاں، وہ گورے گورے پاؤں
ہاتھوں میں اپنے لے، میں لگانے لگا حِنا

اُس وقت جسی نکلیں مری حسرتیں نظیرؔ
اُن لذتوں کو دل ہی سمجھتا ہے یا حِنا

22-
سب کتابوں کے کھل گئے معنی
جب سے دیکھی نظیر دل کی کتاب

23-
چاندنی ہے رات ہے خلوت ہے صحنِ باغ میں
جام بھر ساقی کہ یہ قسمت سے ہاتھ آئی ہے رات

24-
راہ دیکھی بہت نظیرؔ اُس کی
جب نہ آیا وہ اس مکاں کے بیچ

پان بھی پانداں میں بند رہے
عطر بھی قید عطرداں کے بیچ

25-
بندے کے قلم ہاتھ میں ہوتا تو عجب تھا
صد شکر کہ ہے کاتبِ تقدیر کوئی اور

26-
مجھے یہ ڈر ہے کسی کی نظر نہ لگ جائے
پھرو نہ تم کھلے بالوں سے جان کوٹھے پر

27-
واماندگانِ راہ تو منزل پہ جا پڑے
اب تُو بھی اے نظیرؔ یہاں سے قدم تراش

28-
مے بھی ہے، مینا بھی ہے، ساغر بھی ہے، ساقی نہیں
دل میں آتا ہے لگا دیں آگ میخانے کو ہم

29-
پوچھے ہے اس سے جب کوئی قتلِ نظیرؔ کو
کہتا ہے ہم نے مارا ہے، ہاں ہاں، نہیں نہیں

30-
نظیرؔ آندھی میں کہتے ہیں کہ اکثر دیو آتے ہیں
میاں ہم کو تو لے جاتی ہیں پریاں گھیر آندھی میں

31-
گھڑی گھڑی ہمیں دیکھ اپنے در پہ کہتا ہے
یہ کون ہیں جو اِدھر بار بار آتے ہیں

گئے تھے ملنے کو شاید جھڑک دیا اُس نے
میاں نظیرؔ تو کچھ شرمسار آتے ہیں

32-
گلے لگائیے، منھ چومیے، سُلا رکھیے
ہمارے دل میں بھی کیا کیا ہوس اکٹھی ہے

33-
انداز بلا، ناز ستم، قہر تبسم
اور تس پہ غضب کم نگہی، کم سخنی ہے

34-
وعدہ تو کیا ہے کہ ہم آئیں گے پر اُن کو
حیلے جو ہیں جُل دینے کے کیا کیا نہیں آتے

35-
بقا ہماری جو پوچھو تو جوں چراغِ مزار
ہوا کے بیچ کوئی دم رہے رہے نہ رہے