انتخاب میر تقی میر از ناصر کاظمی

ناصر کاظمی کے منتخب کردہ میر تقی میر کے پچاس اشعار
محمد تقی نام۔ میرؔ تخلص۔ پردادا حجاز سے دکن آئے۔ وہاں سے احمد آباد (گجرات) میں آ کر قیام کیا۔ آخر اکبرآباد (آگرہ) میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ میر تقی 1722ء میں وہیں پیدا ہوئے۔ والد کا نام محمد علی تھا۔ علی متقی کے لقب سے مشہور تھے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد اور سید امان اللہ سے حاصل کی۔ بچپن ہی میں یتیم ہو گئے۔ اس لیے اپنے سوتیلے خالو سراج الدین علی خاں آرزو کے پاس دلی چلے آئے اور انہی کے دامنِ تربیت میں پرورش پائی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ سلطنتِ مغلیہ کا چراغ ٹمٹما رہا تھا۔ نواب آصف الدولہ کی دعوت پر 1782ء میں لکھنؤ گئے۔ کسی بات پر نواب سے اَن بن ہو گئی اور دربار کا تعلق منقطع ہو گیا۔ 1810ء میں وفات پائی۔ اردو شعراء کا سب سے پہلا تذکرہ "نکات الشعراء" و ذکرِ میرؔ (فارسی) اور "کلیاتِ میرؔ" ان سے یادگار ہیں۔ 

1-
بلبوں نے کیا گل افشاں میرؔ کا مرقد کیا
دُور سے آیا نظر تو پھولوں کا اک ڈھیر تھا

2-
شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا

تھے برے مغبچوں کے تیور لیک
شیخ میخانے سے بھلا کھسکا

تاب کس کو جو حالِ میرؔ سنے
حال ہی اور کچھ ہے مجلس کا

3-
خوب دریافت جو کیا ہم نے
وقتِ خوش میرؔ نکہتِ گل تھا

4-
 بگڑا اگر وہ شوخ تو سنیو کہ رہ گیا
خورشید اپنی تیغ و سپر ہی سنبھالتا

5-
وہ جو خنجر بکف نظر آیا
میرؔ سو جان سے نثار ہوا

6-
صبح تک شمع سر کو دھنتی رہی
کیا پتنگے نے التماس کیا

7-
نامرادی کی رسم میرؔ سے ہے
طور یہ اس جوان سے نکلا

8-
دل سے شوخِ رُخِ نکو نہ گیا
جھانکنا تاکنا کبھو نہ گیا

9-
دل کی آبادی کی اس حد ہے خرابی کہ نہ پوچھ
جانا جاتا ہے کہ اس راہ سے لشکر نکلا

گنج کاوی جو کی سینے کی غمِ ہجراں نے
اس دفینے میں سے اقسامِ جواہر نکلا

10-
نالہء میرؔ نہیں رات سے سنتے ہم لوگ
کیا ترے کوچے سے اے شوخ وہ رنجور گیا

11-
کس طرح مانیے یارو کہ یہ عاشق نہیں
رنگ اڑا جاتا ہے ٹک چہرہ تو دیکھو میرؔ کا

12-
نہ دیکھا میرِؔ آوارہ کو لیکن
غبار اِک ناتواں سا کُو بہ کُو تھا

13-
قافلے میں صبح کے اِک شور ہے
یعنی غافل ہم چلے سوتا ہے کیا

14-
خوبرو اب نہیں ہیں گندم گوں
میرؔ ہندوستاں میں کال پڑا

15-
کہیے گا اُس سے قصہء مجنوں
یعنی پردے میں غم سنائیے گا

18-
ممکن نہیں کہ گل کرے ویسی شگفتگی
اِس سرزمیں میں تخمِ محبت میں بو چکا

19-
ہر صبح حادثے سے یہ کہتا ہے آسماں
دے جامِ خون میرؔ کو گر منہ وہ دھو چکا

20-
کس کی نگہ کی گردش تھی میرؔ روُ بہ مسجد
محراب میں سے زاہد مست و خراب نکلا

21-
اُن نے تو تیغ کھینچی تھی پر جی چلا کے میرؔ
ہم نے بھی ایک دم میں تماشا دکھا دیا

22-
رویا کیے ہیں غم سے ترے ہم تمام شب
پڑتی رہی ہے زور سے شبنم تمام شب

23-
میرؔ شاعر بھی زور تھا کوئی
دیکھتے ہو نہ بات کا اسلوب

24-
پھر نہ آئے جو ہوئے خاک میں جا آسودہ
غالباََ زیرِ زمیں میرؔ آرام بہت ہے

25-
اے ابرِ تر تُو اور کسی سمت کو برس
اِس ملک میں ہماری ہے یہ چشمِ تر ہی بس
>
26-
میرؔ بندوں سے کام کب نکلا
مانگنا ہے جو کچھ خدا سے مانگ

27-
گرچہ آوارہ جوں صبا ہیں ہم
لیک لگ چلنے میں بلا ہیں ہم

سرمہ آلودہ مت رکھا کر چشم
دیکھ اس وضع سے خفا ہیں ہم

28-
اس طرح دل گیا کہ اب تک ہم
بیٹھے روتے ہیں ہاتھ ملتے ہیں

29-
جاؤ گے بھول عہد کو فرہاد و قیس کے
گر پہنچیں ہم شکستہ دلوں کی بھی باریاں

30-
مر کر بھی ہاتھ آوے تو میرؔ مفت ہے وہ
جی کے زیان کو بھی ہم سود جانتے ہیں

31-
مانندِ شمع ہم نے حضور اپنے یار میں
کارِ وفا تمام کیا ایک آہ میں

32-
خاکِ آدم ہی ہے تمام زمیں
پاؤں کو ہم سنبھال رکھتے ہیں

گفتگو ناقصوں سے ہے ورنہ
میرؔ جی بھی کمال رکھتے ہیں

33-
گوشِ دیوار تک تو جا نالے
اس میں گل کو بھی کان ہوتے ہیں

34-
کوئی زمزمہ کرے میرؔ آسا دلخراش
یوں تو قفس میں اور گرفتار بہت ہیں

35-
جہاں اب خارزاریں ہو گئی ہیں
یہیں آگے بہاریں ہو گئیں ہیں

36-
کچھ موجِ ہوا پیچاں اے میرؔ نظر آئی
شاید کہ بہار آئی زنجیر نظر آئی

دلی کے نہ تھے کوچے اوراقِ مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی

37-
یوں اٹھے آہ اس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے

عشق اِک میرؔ بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے

38-
سیر کر میرؔ اِس چمن کی شتاب
ہے خزاں بھی سراغ میں گل کے

39-
میرؔ صاحب رُلا گئے سب کو
کل وہ تشریف یاں بھی لائے تھے

40-
نے اب ہے جگر کاوی نے سینہ خراشی
کچھ جی میں یہ آئے ہے بیکار رہا کیجے

41-
شعلہ افشاں اگر ایسی ہی رہی آہ تو میرؔ
گھر کو ہم اپنے کسو رات جلا بیٹھیں گے

42-
اس سخن نا شنو سے کیا کہیے
غیر کی بات مان جاتا ہے

43-
میرؔ اب بہار آئی صحرا میں چل جنوں کر
کوئی بھی فصلِ گل میں نادان گھر رہے ہے

44-
یاقوت کوئی ان کو کہے ہے کوئی گلبرگ
ٹک ہونٹ ہلا تو بھی کہ اک بات ٹھہر جائے

45-
اس دَشت میں اے سَیل سنبھل ہی کے قدم رکھ
ہر سمت کو یاں دفن مری تشنہ لبی ہے

46-
نہ سنا رات ہم نے اِک نالہ
غالباََ میرؔ مر رہا ہووے

47-
مصائب اور تھے پر دل کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے

سرہانے میرؔ کے کوئی نہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

48-
پھر میرؔ آج مسجدِ جامع کے تھے امام
داغِ شراب دھوتے تھے کل جانماز کا

49-
 ان صحبتوں میں آخر جانیں ہی جاتیاں ہیں
نہ عشق کو ہے صرفہ نہ حسن کو محابا

50-
بے خودی لے گئی کہاں ہم کو
دیر سے انتظار ہے اپنا

روتے پھرتے ہیں ساری ساری رات
اب یہی روزگار ہے اپنا

کچھ نہیں ہم مثالِ عنقا لیک
شہر شہر اشتہار ہے اپنا

جس کو تم آسماں سمجھتے ہو
سو دلوں کا غبار ہے اپنا