Chak Piran Ka Jassa چک پیراں کا جسا by Balwant Singh

Chak Piran Ka Jassa چک پیراں کا جسا by Balwant Singh
چک پیراں کا جسا پنجاب دھرتی کی مٹی سے ابھرتا ہوا گھبرو ناول ہے۔ دیہات کے ماحول کی عکاسی رام لعل، غلام الثقلین نقوی اور ابوالفضل صدیقی کے ہاں بھرپور ملتی ہے اور متاخرین میں طاہرہ اقبال کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن بلونت سنگھ کا اندازِ نگارش اپنا ہے اور منفرد ہے۔ وہ پنجاب کی مٹی میں وہاں کے کلچر کو گوندھ کر چاک پر چڑھاتے ہیں۔ سکھ جاتی تہذیب، رسم و رواج، بول چال محاورہ، گالی، میلے ٹھیلوں کے ساتھ وہ سکھوں کے رہن سہن اندازِ زندگی روزمرہ کی بول چال کو خاص سکھ انداز میں پینٹ کرتے ہیں۔
ایک دن آئے گا ہم زمین پر نہیں ہوں گے، اس وقت قاری فیصلہ کرے گا، نقاد کرے گا کہ بلونگ سنگھ کس پائے کا ناول نگار اور افسانہ نگار ہے۔ اس کے افسانے جمع کر کے شائع کریں گے۔ کلیات کلیات ۔۔۔۔۔ اسے مکمل شائع کیا جائے گا۔ اس پر سیمنار اور تھیسز ہوں گے۔ ہم نہیں ہوں گے لیکن بلونت سنگھ ہوگا ۔۔۔ "چک پیراں کا جسا ہوگا، وہ زندہ رہے گا۔ (حامد سراج) {alertInfo}
عام خیال یہ ہے کہ بلونت سنگھ کا نام ذہن میں آتے ہی پنجاب کے دیہات اور گاؤں کا ماحول نگاہوں کے سامنے گھوم جاتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بلونت سنگھ کسی مخصوص فضا کا انسان نہیں۔ بلکہ کہانی کا بندہ ہے۔ اس کی کہانیاں ایسے کوزے میں بند ہیں جو بڑی چابکدستی کے ساتھ تیار کر کے بڑے پریم سے سجاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی جگہ مٹی زیادہ چکنی اور رنگدار ہوتی ہے اور کسی علاقے کی مٹی بھربھری ہونے کے وجہ سے آبخورہ کھردرا اور بے رنگ رہ جاتا ہے۔ لیکن بلونت سنگھ کا سب سے بڑا کمال یہی ہے کہ مال اچھا نہ ہونے کی باوجود وہ خوبصورت اور توجہ طلب چیزیں بناتا اور اپنے سامنے طلب گاروں کے ڈیرے رکھتا ہے۔