اردو شاعری میں تلمیح یا تملیح سے کیا مراد ہے؟

تلمیح سے کیا مراد ہے؟ تلمیح کے لغوی معنی ہیں اشارہ کرنا۔ ادب کی اصطلاح میں کلام میں کسی مشہور قصے، واقعے، شخصیت، مقام، داستان، یا روایت کی طرف اشارہ کرنا تلمیح کہلاتا ہے۔ مثلا یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔  حسنِ یوسف، دمِ عیسیٰ، یدِ بیضا داری آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری  اس دل آویز شعر میں حسنِ یوسفؑ، حضرت یوسفؑ، کی طرف اشارہ ہے جو حسن و زیبائی میں لاثانی تھے۔ دمِ عیسیٰ، حضرتِ عیسیٰ کی طرف اشارہ ہے جو لاعلاج بیماروں کو شفا بخشتے اور تنِ مردہ میں جان ڈال دیتے تھے۔ اس طرح یدِ بیضا، حضرت موسٰیؑ کے ہاتھ کی طرف اشارہ ہے جو بچپن میں انگارہ اٹھانے کی وجہ سے جل گیا تھا مگر اللہ تعالٰی نے اس جلے ہوئے ہاتھ میں بطورِ معجزہ ایسا نور بھر دیا تھا کہ جب آپ اس ہاتھ کو بغل میں دے کر باہر نکالتے تو وہ سورج کی طرح روشن ہو جاتا اور آنکھوں میں چکا چوند آنے لگتی تھی۔   اردو زبان میں اَن گنت تلمیحات مستعمل ہیں مثلا: اتشِ نمرود، کوہِ طُور، اورنگِ سلیمان، آبِ حیات، صبرِ ایوب، ابنِ مریم، خیبر شکن وغیرہ وغیرہ۔  مشہور شعر ہے:  ہم نے کیا کیا نہ ترے عشق میں محبوب کیا صبر ایوب کیا، گریہء یعقوب کیا  یا غالبؔ دھلوی کا یہ شعر:  ابنِ مریم ہوا کرے کوئی مرے دکھ کی دوا کرے کوئی

تلمیح یا تملیح سے کیا مراد ہے؟

تلمیح کے لغوی معنی ہیں اشارہ کرنا۔ ادب کی اصطلاح میں کلام میں کسی مشہور قصے، واقعے، شخصیت، مقام، داستان، یا روایت کی طرف اشارہ کرنا تلمیح کہلاتا ہے۔ مثلا یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔

حسنِ یوسف، دمِ عیسیٰ، یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری

اس دل آویز شعر میں حسنِ یوسفؑ، حضرت یوسفؑ، کی طرف اشارہ ہے جو حسن و زیبائی میں لاثانی تھے۔ دمِ عیسیٰ، حضرتِ عیسیٰ کی طرف اشارہ ہے جو لاعلاج بیماروں کو شفا بخشتے اور تنِ مردہ میں جان ڈال دیتے تھے۔ اس طرح یدِ بیضا، حضرت موسٰیؑ کے ہاتھ کی طرف اشارہ ہے جو بچپن میں انگارہ اٹھانے کی وجہ سے جل گیا تھا مگر اللہ تعالٰی نے اس جلے ہوئے ہاتھ میں بطورِ معجزہ ایسا نور بھر دیا تھا کہ جب آپ اس ہاتھ کو بغل میں دے کر باہر نکالتے تو وہ سورج کی طرح روشن ہو جاتا اور آنکھوں میں چکا چوند آنے لگتی تھی۔ 

اردو زبان میں اَن گنت تلمیحات مستعمل ہیں مثلا: اتشِ نمرود، کوہِ طُور، اورنگِ سلیمان، آبِ حیات، صبرِ ایوب، ابنِ مریم، خیبر شکن وغیرہ وغیرہ۔

مشہور شعر ہے:
ہم نے کیا کیا نہ ترے عشق میں محبوب کیا
صبر ایوب کیا، گریہء یعقوب کیا

یا غالبؔ دھلوی کا یہ شعر:

ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
مرے دکھ کی دوا کرے کوئی