کلیات جگر مراد آبادی

کلیات جگر مراد آبادی

چلو دیکھ آئیں جگرؔ کا تماشا
سنا ہے وہ کافر مسلمان ہوگا

علی سکندر جگرؔ مراد آبادی علماء کے ایک خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ خاندان دہلی کا رہنے والا تھا جس نے کہ بعد میں دو حصوں میں تقسیم ہو کر اعظم پور باشتہ (بہار) اور مراد آباد (یوپی) میں سکونت اختیار کر لی۔ جگر کے مورث اعلیٰ مولوی سمیع صاحب شہنشاہ شاہجہان کے اتالیق تے۔ بنارس میں جگرؔ کی پیدائش ہوئی۔ لیکن ابھی جگر چھ ماہ کے تھے کہ ان کے والد مراد آباد چلے آئے جو ان کے اجداد کا وطن تھا۔ جگر صاحب کی ابتدائی تعلیم و تربیت مراد آباد میں ہی ہوئی۔ 

شاعری انہوں نے اجداد کے ورثے میں پائی تھی۔ ان کے پردادا حافظ نور محمد صاحب اور دادا حافظ مولوی امجد علی صاحب دونوں شاعر تھے۔ والد کی زبانی انہوں نے سنا تھا کہ جد امجد بھی شاعر تھے۔ ان کے دادا مولوی امجد علی مرحوم کا ایک شعر ملاحظہ ہو:

لطفِ جاناں رفتہ رفتہ آفتِ جاں ہو گیا
ابرِ رحمت اس طرح برسا کہ طوفاں ہو گیا

ان کے والد مولوی علی نظر صاحب نظرؔ تخلص کرتے تھے ان کا ایک شعر ہے:

وہ یہاں آئے ہم وہاں پہنچے
اُن کو شکوہ ہمیں گلہ نہ رہا

جگرؔ صاحب کے چچا مولوی ظفر صاحب ظفرؔ بھی اپنے زمانے کی اچھے شاعر تے ان کا یاک مقطع ہے؎

ہو ہی جاتا ہے تخلص پر ظفرؔ کا دھوکا
اے ظفرؔ! بندشِ اشعار کروں یا نہ کروں


جگرؔ صاحب غزل کے شاعر ہیں اور غزل اصلاََ حسن و عشق کی داستان، کاکل و رخسار کا قصہ ہجر و وصال کی کہانی، غمِ ایام کا افسانہ، غمِ روزگار کی حکایت اور بیک وقت مسرت و شادمانی کا نغمہ اور یاس و حرماں نصیبی کا تذکرہ ہے۔ جگرؔ نے ساری عمر حسن اور عشق کے نغمے گائے ہیں۔ حسن و عشق کا تصور ان کے یہاں باوجود اپنی لطافت، اپنے دھندلکے، اپنے جلووں اور اس کے پردوں کے ایک زندہ ور حقیقی تصور ہے۔ ان کا عشق رومانی ہے۔ وہ حسن کو ایک قدرِ مطلق مانتے ہیں مگر ان کے یہاں حسن ایک ماورائی پرچھائیں نہیں، ایک زندہ اور تابندہ حقیقت ہے۔ جگرؔ کا حسن کا تصور اصغرؔ کے تصور سے مختلف ہے۔ اگرچہ دونوں میں کچھ مناسبت پائی جاتی ہے۔ جگر کے یہاں حسن کا تصور اصغرؔ سے زیادہ حسرتؔ کی یاد دلاتا ہے۔ حسرتؔ نے حقیقت میں رومان تلاش کیا۔ جگر نے حقیقت کو رومان بنا لیا۔ دونوں قدیم بھی ہیں اور جدید بھی۔

جگرؔ کی مقبولیت اور شہرت کو عام طور پر نقادوں نے تسلیم کیا ہے۔ ان کے تغزل، ان کی رندی و سرمستی، ان کے لطیف اشارات اور دلکش کنایات، ان کی حسن پرستی اور حسن کاری سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ 

جگرؔ جدید نہیں ہیں وہ ایک معنی میں ابدی (Ageless) ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ جگرؔ کی قدریں ابدی ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جگر جن جذبات کو متاثر کرتے ہیں جن تاروں کو چھیڑتے ہیں جو نغمہ الاپتے ہیں ان کی نغمگی بڑی دیرپا اور پائدار ہے۔ 

اٹھتی نہیں ہے آنکھ مگر اُس کے روبرو
نادیدہ اِک نگاہ کیے جا رہا ہوں میں