کلیات ذوق مرتبہ تنویر احمد علوی

کلیات ذوق مرتبہ تنویر احمد علوی

شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ 1203 ھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد شیخ محمد رمضان قدیم دھلی کے محلہ کابلی دروازہ میں رہتے تھے، جو اس دور میں اپنی زبان دانی اور زبانی سازی کے لیے مشہور تھا۔ علاوہ بریں یہ وہ زمانہ تھا جب دلی کے کوچہ و بازار شعرائے ریختہ کے نغموں سے گونج رہے تھے اور عالم و عامی کوئی اس ذوق سے خالی نہ تھا۔ 

ذوقؔ کی شاعرانہ شہرت اور مقبولیت میں ان کی قوت سخن گوئی اور کثرتِ مشقِ کے علاوہ شہزادہ ولی عہد سے توسل اور ان کی "غزل بنانے" کو بھی بہت کچھ دخل حاصل تھا۔ ان کی یہی حیثیت اساتذہء وقت اور خاص طور پر شاہ نصیر کے ساتھ انکی معاصرانہ چشمک کا بھی سبب بنی جس نے ان کی شاعری کو کیفیت و کمیت دونوں اعتبارات سے متاثر کیا۔ یوں بھی اس دور میں مشاقی، زود گوئی، مہارت فن اور کثرت نگاری کو محک استادی سمجھا جاتا تھا اور اس کے بغیر کوئی شاعر اس دورِ شاعری میں پنپ نہیں سکتا تھا۔ 

شعر و سخن کے ساتھ اس لگاؤ اور زبان و بیان پر اس درجہ قدرت نے معاصرین کی نظر میں ذوقؔ کے مرتبہء شاعری کو بہت بلند کر دیا اور شاعرانہ شہرت کے ساتھ ان کے شاگردوں کا حلقہ بھی وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ شیخ ذوقؔ ابتدائے عمر سے لیکر انتہائے عمر تک جو تقریباََ نصف صدی کے برابر ہوتا ہے، سلسلہء شاعری سے وابستہ رہے۔ اسی اثناء میں انہوں نے بے شمار شعر کہے، اپنے لیے بھی اور بہت کچھ دوسروں کے لیے بھی۔ ذیل میں حضرتِ شیخ ذوقؔ دہلوی کے کلیات کی 2 جلدیں پیش کی جا رہی ہیں۔ امید ہیں قارئین قبول فرمائیں گے۔ :)