ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اردو مثنویاں از گوپی چند نارنگ

ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اردو مثنویاں از گوپی چند نارنگ
اردو شاعری کے ساتھ ایک بڑی خرابی یہ ہوئی کہ اردو غزل کو پوری اردو شاعری سمجھ لیا گیا۔ تو جب اردو کی شعری روایت کی بات کی گئی تو اس کا مطلب لیا گیا، اردو غزل کی روایت۔ اس سے چند اور خرابیاں پیدا ہوئیں۔ ایک بڑی خرابی یہ پیدا ہوئی کہ اردو زبان کے مخالفوں کو یہ کہنے کا موقع ہاتھ آ گیا کہ اردو کا تو اس سر زمین سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ اس کی شاعری کو دیکھو، استعارے، تشبیہیں، تلمیحیں، موسم، پرندے، درخت سب عرب و عجم سے مستعار ہیں اور جواب دینے والوں کو دیکھو کہ انہیں اپنی زبان کے دفاع میں نظیر اکبر ابادی کے سوا کوئی حوالہ ہی یاد نہ آتا تھا۔ کیسے یاد آتا۔ ہمارے نقادوں نے اپنا زورِ تنقید تو غزل پر صرف کیا تھا۔ باقی شاعروں کو فالتو مال جان کر کسی کال کوٹھری میں ڈال دیا۔
نارنگ صاحب کا تحقیقی کارنامہ اصل میں یہ ہے کہ انہوں نے کال کوٹھری کا تالا توڑا اور چھپا ہوا سارا مال ہمارے سامنے بکھیر دیا۔ لیجیے یہ تو اردو شاعری کا سارا نقشہ ہی بدل گیا۔ عجمی روایت تو غزل تک تھی۔ اس سے گزر کر تنک مثنویوں میں جھانکو۔ یہاں ہندی روایت کس زور و شور سے اپنا جلوہ دکھا رہی ہے۔ یہاں تو زمین و آسمان ہی اور ہیں۔ غزل کے زمین و آسمان سے یکسر مختلف۔ ہندی دیو مالا، پرانوں کی کہانیاں، مہا بھارت کی کتھائیں، لوک کہانیاں، قدیم اور وسطی زمانے کے ہند کے تاریخی، نیم تاریخی اور تخیلاتی قصے۔ مختصر یہ کہ بر صغیر کی پوری سرزمین اپنی دیومالا اور کتھا کہانی کی روایت کے ساتھ یہاں جلوہ گر ہے۔ ایران و عرب کے قصے بھی اگر آئے ہیں تو اسی رنگ میں رنگے گئے۔ (انتظار حسین)