میاں داد خاں سیّاح اور ان کا کلام

میاں داد خاں سیّاح اور ان کا کلام

منشی سیف الحق میاں داد خاں سیاحؔ کا نام مرزا غالبؔ کے شاگردوں، دوستوں اور طرفداروں میں ایک افسانوی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کئی بار دلی اور لکھنؤ کا سفر کیا اور ہندوستان کے متعدد شہروں کی بھی سیر و سیاحت کی۔ سیاحؔ نے طویل عمر پائی تھی۔ سیاح کے حالاتِ زندگی کسی جگہ نہیں پائے جاتے۔ اس کے مآخذ چار قسم کے ہیں۔ 1۔ تذکرے اور دیگر تصانیف۔ 2۔ خطوط غالبؔ۔ 3۔ خود سیاحؔ کی تصانیف۔ 4۔ ان بزرگوں کے بیانات جنہیں سیاحؔ کی صحبتوں سے مستفید ہونے کا موقع ملا ہے۔ خمخانہء جاوید میں بھی کسی قدر تفصیلی حالات ملتے ہیں۔ 
سیاحؔ تخلص رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے اطراف ہندوستان، پنجاب، بنگالہ، کشمیر کے سوا عرب و عجم کے نظارے بھی آنکھ س دیکھے تھے۔ فارسی زبان خوب جانتے تھے۔ عقل و دانش ضمیر میں داخل تھی۔ منشیؔ نولکشور سے ان کا بہت یارانہ تھا اور وہ بھی قلم دوست ہونے کے باعث ان کی قدر کرتے تھے۔

قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو

جاں بلب دیکھ کے مجھ کو مرے عیسیٰ نے کہا
لا دوا درد ہے یہ کیا کروں مر جانے دو

لال ڈورے تری آنکھوں میں جو دیکھے تو کھلا
مئے گل رنگ سے لبریز ہیں پیمانے دو

ٹھہرو تیوری کو چڑھائے ہوئے جاتے ہو کدھر
دل کا صدقہ تو ابھی سر سے اُتر جانے دو

ہم بھی منزل پہ پہنچ جائیں گے مرتے کھپتے
قافلہ یاروں کا جاتا ہے اگر جانے دو
-

کرتے ہیں وہ باتیں کہ مری جان پہ بن جائے
بگڑے ہوئے کچھ آئے ہیں بہکائے ہوئے ہیں

-
کہدو سنبھل کے میکدے میں آئے محتسب
ٹوٹیں گے خم ضرور مگر اس کے سر کے ساتھ
-
سیاحؔ کیوں نہ کیجیے نظارہء بتاں
لایا ہے شوق جانبِ ہندوستاں مجھے
-
کھینچو خنجر نہ کمر سے پئے قتلِ سیاحؔ
دست نازک کہیں ہو جائے نہ شَل جانے دو