احمد مشتاق کی غزلیں | کلیات احمد مشتاق سے انتخاب

احمد مشتاق کی غزلیں | کلیات احمد مشتاق سے انتخاب

احمد مشتاق کے اشعار


شفق میں رنگ ہیں بیتے ہوئے زمانوں کے
بہت اداس ہیں دن تیرے یاد آنے کے

وہ پتیوں سے بھری ٹہنیاں تری بانہیں
بلا رہے ہیں شجر تیرے آستانے کے

وہ جن دنوں میں کرم بے حساب تھا تیرا
وہی تو دن تھے مرے کھیلنے کے کھانے کے

سفر میں منزل واماندگی بھی شامل ہے
اٹھا رہا ہوں مزے تھک کے بیٹھ جانے کے

سلگ رہی ہے فضا میں بہار کی خوشبو
چمن سے دور کھلے پھول آشیانے کے


رنگ کیا کیا نہ دکھانے آئے
یار پھر مجھ کو منانے آئے

قصرِ ویراں کے پرانے سپنے
جاگتی آنکھ سلانے آئے

سوئیں شاخوں سے لپٹ کر کرنیں
زرد پھولوں کے زمانے آئے

اب نہ کلیوں کے دریچوں میں صبا
بات کرنے کے بہانے آئے

ان مکینوں کو مکاں روتے ہیں
جو انہیں پھر نہ بسانے آئے

خالی ڈھنڈار پڑی ہے بستی
پھر کوئی آگ جلانے آئے

پھر نہیں ٹھور ٹھکانا اپنا
کیا خبر کون بلانے آئے

نین ساگر میں چلی رات کی ناؤ
کون اب پار لگانے آئے

نہ ملی جوہرِ بے زخم کی داد
ہم بہر رنگ دکھانے آئے

کھل گیا رازِ تمنا مشتاقؔ
ہمیں آنسو نہ بہانے آئے


روشنی گو مرے سخن میں نہیں
دل میں جو چاند ہے گہن میں نہیں

چاک سب بند ہیں گریباں کے
دل کا اک تار پیرہن میں نہیں

ریت میں دب کے مرگیا ہوگا
اب وہ آہو کسی ختن میں نہیں

ہونٹ کا چاند نین کا تارا
میری تنہائیوں کے بن میں نہیں

رنگ و نکہت ہوا کے ساتھی ہیں
پھول کا آشیاں کرن میں نہیں


آنکھ اٹھاتا ہوں تو ہٹ جاتے ہیں
دن ترے دھیان میں کٹ جاتے ہیں

ابر اندیشہ بکھرتا ہی نہیں
اور بادل ہیں جو چھٹ جاتے ہیں

کسی بے نام ہوا کے جھونکے
درد کی تان پلٹ جاتے ہیں

زلزلے ہیں کہ تمہاری یادیں
دھیان کے شہر الٹ جاتے ہیں

ذائقے بن کے پرانے موسم
میرے تالو سے چمٹ جاتے ہیں

کون منزل کا سفر ہے درپیش
راستے راہ سے ہٹ جاتے ہیں

ہاتھ کاغذ پہ دھرے بیٹھا ہوں
شعر آ آ کے پلٹ جاتے ہیں


چاند اس گھر کے دریچوں کے برابر آیا
دلِ مشتاق ٹھہر جا وہی منظر آیا

میں بہت خوش تھا کڑی دھوپ کے سناٹے میں
کیوں تری یاد کا بادل مرے سر پر آیا

بجھ گئی رونقِ پروانہ تو محفل چمکی
سو گئے اہلِ تمنا تو ستم گر آیا

یار سب جمع ہوئے رات کی خاموشی میں
کوئی رو کر تو کوئی بال بنا کر آیا


کوئی اپنی دھن میں گزر جائے گا
کوئی چلتے چلتے ٹھہر جائے گا

بڑے چاند کی آخری رات ہے
وہ دفتر سے نکلا تو گھر جائے گا

پون بین باجی درختوں سے دور
وہ رستے میں ہوگا تو ڈر جائے گا

انوکھی چمک اس کے چہرے میں تھی
مجھے کیا خبر تھی کہ مر جائے گا

جو امڈے ہیں آنسو تو رو کیوں نہ لیں
چلو بوجھ سر سے اتر جائے گا


آخر تمام داغ مٹے زخم بھر گئے
باتیں کسی کی یاد رہیں دن گزر گئے

کس کو خبر طلب کی اندھیری رتوں سے دور
غم کے سفید پھول کھلے اور بکھر گئے

گوشوں میں دل کے اب کوئی خواہش نہیں رہی
ان ٹہنیوں سے سارے پرندے اتر گئے

جو ساحل مراد کے لمبے سفر پہ تھے
بول اے ہوائے غم وہ سفینے کدھر گئے

اپنی نظر کو اور مناظر بھی تھے پسند
ہم رفتہ رفتہ اس کی گلی سے گذر گئے

وہ میرے ہمصفیر تو تھے ہمسفر نہ تھے
جو تھوڑی دور ساتھ چلے پھر بکھر گئے

اک تہمتِ ستم بھی اٹھانے نہ دی اسے
کیا لوگ تھے کہ ایک ہی دھمکی میں مر گئے


تنہائیوں میں نغمہ سرا ہو گیا کوئی
مجلس گرانِ شب کی نوا ہو گیا کوئی

لو مٹ گئے تصورِ جاناں کے فاصلے
لو رشتہء نظر سے جدا ہو گیا کوئی

لو کاٹ لی کسی نے شبِ مژدہء وصال
شائستہء فریبِ وفا ہو گیا کوئی

یاد آ گئے فسونِ تمنا کے شعبدے
بیتے ہوئے دنوں کی صدا ہو گیا کوئی


نہ باقی رہا کچھ نشانِ بہار
ہوا پتہ پتہ اڑا لے گئی

کسی بولتی آنکھ کی بے رُخی
سکوتِ سخن آشنا لے گئی

جلی ٹہنیاں زرد پتوں کے ڈھیر
خزاں سب خزانے چھپا لے گئی

مرے آنسوؤں کی جھلک جس میں تھی
وہ مٹی کدھر کی ہوا لے گئی

10۔
گردشِ شام و سحر دن کوئی ایسا نکلے
وہ مرے ساتھ ہو اور صبح کا تارا نکلے

چھپ گیا چاند کھلی زلف کی خوشبو لے کر
اب چلی آؤ کہ آنکھوں سے اندھیرا نکلے

کھو گیا ہوں تری یادوں کے گھنے جنگل میں
کیا عجب ہے جو یہیں سے کوئی رستہ نکلے

ایک مدت سے سرِ راہ کھڑا ہوں مشتاق
اس توقع پہ کہ شاید کوئی تجھ سا نکلے

احمد مشتاق