ایہام گوئی کی تعریف اور مثالیں

ایہام گوئی کی تعریف اور مثالیں

شمالی ہند میں اردو شاعری کا ابتدائی دور (یعنی اٹھارویں صدی کا وسط اول) ایہام گوئی سے عبارت ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ان سے پہلے شاعری میں ایہام کا استعمال بطور صنعت چلن نہ تھا۔ فارسی شاعری اور خود ولی دکنی کے یہاں بھی ایہام موجود ہے۔ اس دور کے شاعروں نے معنی یابی، تلاشِ لفظِ تازہ اور طرزِ تازہ اختیار کرنے کے لیے بطور خاص اپنی شاعری کی بنیاد ایہام پر رکھی۔ محمد حسین آزاد نے ان کا رشتہ سنسکرت اور برج بھاشا کے دوہوں سے جوڑا ہے۔ 

جمیل جالبی نے ایہام گوئی کو تہذیبی اور معاشرتی تقاضہ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:
اس دور میں ہر چیز اپنی جگہ سے ہٹ گئی تھی ........ اس کا ظاہر اس کے باطن سے مختلف تھا۔ محویت کا تضاد فرد کو اندر ہی اندر سے گھن کی طرح کھا رہا تھا۔ سارے معاشرے کو ہر چیز اور وہی بات کامیاب تھی جس کے دو رُخ تھے۔ اسی تہذیبی،معاشرتی اور سیاسی ماحول میں فارسی شعرائے متاخرین کی طرح نئے اردو شعرا بھی ایہام گوئی کی طرف متوجہ ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ رنگِ سُخن اتنا مقبول ہوا کہ اردو شاعری کی "پہلی ادبی تحریک" بن گیا۔ ایہام گوئی کی بنیاد "معنی یابی و تلاشِ مضمون تازہ" پر رکھی گئی تھی اور اس میں یہ چھپی ہوئی خواہش بھی شامل تھی کہ وہ معنی، جو زندگی میں باقی نہیں رہے تھے، انہیں شاعری میں تلاش کیا جائے۔ {alertInfo}

ایہام گو شعراء میں شاہ مبارک آبروؔ، شاکی ناجی، شرف الدین مضمونؔ، شاہ حاتمؔ، مصطفےٰ خاں یک رنگ، احسن اللہ احسن، میر مکھن پاکباز، اور عبدالوہاب یکرو وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ لیکن جنہوں نے ایہام گوئی کی بنیاد رکھی ان میں ناجیؔ، مضمونؔ، آبروؔ، حاتمؔ مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ 

کثرتِ استعمال کے باعث یہ طرز پامال ہو گیا۔ مورخینِ ادب اور ناقدین نے ان کی شاعری کو جذبہ و احساس سے عاری اور الفاظ کا گورکھ دھندہ کہہ کر رد کر دیا لیکن کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ یہ لفظِ تازہ کے تلاش میں نہ صرف الفاظ و مرکبات کی تعداد میں اضافہ کیا بلکہ ایہام گو شعراء کے نزدیک لفظ گنجینہء معنی کے طلسم کی حیثیت رکھتا ہے۔