مبارک شاہ آبرو حیات اور نمونہ کلام
آبرو، شاہ مبارک
نام شیخ نجم الدین عرف شاہ مبارک، آبرو تخلص۔ 1683ء میں گوالیار میں پیدا ہوئے۔ شیخ محمد غوث گوالیاری کی اولاد میں تھے، عنفوانِ شباب میں دہلی میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ آبرو سراج الدین خاں آرزو کے رشتے دار تھے، شعر و سخن میں آرزو سے تلمذ حاصل تھا۔ 1857ء جنگِ آزادی میں ان کا دیوان تلف ہو گیا۔ البتہ ایک مختصر دیوان ان کی یادگار ہے۔ ایک آنکھ کی بینائی جاتی رہی تھی جس کی وجہ سے مرزا مظہر سے اکثر چشمک رہتی تھی۔ گھوڑے کی دولتی سے 21 دسمبر 1733ء کو انتقال ہوا۔
آبرو ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ وہ مشکل سے مشکل زمینوں میں بھی، اس دور میں جب کہ روایت اپنی ابتدائی منزل میں تھی مربوط اور رواں شعر نکالتے تھے۔
نین سیں نین جب ملائے گیا
دل کے اندر مرے سمائے گیا
تیرے چلنے کی سن خبر عاشق
یہی کہتا موا کہ ہاے گیا
قول آبروؔ کا تھا کہ نہ جاؤں گا اس گلی
ہو کر بے قرار دیکھو آج پھر گیا
دور خاموش بیٹھ رہتا ہوں
اس طرح دل کا حال کہتا ہوں
یوں آبروؔ بناوے دل میں ہزار باتیں
جب رو برو ہو تیرے گفتار بھول جاوے
تمہارا دل اگر ہم سے پھرا ہے
تو بہتر ہے، ہمارا بھی خدا ہے
کیا ہوا مر گیا اگر فرہاد
روح پتھر سے سر پٹکتی ہے
Tags:
آبرو، مبارک شاہ