نربدا اور دوسری کہانیاں اسد محمد خاں

اسد محمد خان کی کہانیوں کے مجموعے "نربدا" میں شامل کہانیاں "غصے کی نئی فصل" سے اگے کی طرف بڑھتا ہوا قدم ہے۔ اس مجموعے میں شامل ایک درجن کہانیاں قدرے جداگانہ موسم اور مختلف فضا کی کہانیاں ہیں۔ وہ جو خطِ غبار کی کہر آلود فضا تھی، اب جگمگاتے ہوئے دن میں تبدیل ہو چکی ہے، ہر چیز صاف صاف، روشن روشن، اور تیکھے پن سے نمودار ہو رہی ہے۔ ان کی طویل و مختصر کہانیاں جو اس کتاب میں شامل ہیں مثلاََ "نربدا" اور "رگھوبا" اور "تاریخ فرشتہ" جیسی کہانیاں ان دنوں بہت کم لکھی جا رہی ہیں۔ یہ جتنی سیدھی سادھی ہیں اتنی پچیدہ اور تہ دار بھی ہیں۔ لہذا ان سے سرسری طور پر گزرنا ممکن نہیں۔ 

یہ کہانی درائے "نربدا" (نرب دامیا) کوہِ ست پڑا اور کوہ بندھیا چل کی وادی کی کہانی ہے۔ بھارت ورش کا درمیانی خطہ مہاراشٹر کے ساونتوں، سادھوؤں، بٹ ماروں، ٹھگوں اور اٹھائی گیروں کا پتھریلا خطہ سے نربدا اور اس کی معاون دریا، برساتی ندی نالے سیراب کرتے ہیں اور جہاں تمدنی معاشرے کی نشانیاں دور دور پھیلے ہوئے گاؤں اور قصبات میں بکھری ہوئی ہیں اور معاشرہ بھی وہ جو طاقت کے بل بوتے پر کھڑا ہوا ہے کہ جیسے ہی  کوئی قصبہ طاقت کے محور میں داخل ہو جاتا ہے تو پھر وہ آس پاس کے علاقے کے لیے مرکزِ کششِ ثقل کے مترادف ٹھہرتا ہے کہ ہر کوئی اسی سمت کھنچا چلا جاتا ہے، تحفظ کی خاطر، گزر بسر کی خاطر، ترقی اور آگے بڑھنے کی خاطر "نربدا" کی کہانی بھی بس اتنی سی تو ہے کہ ایک بیل گاڑی میں باب بیٹا، اور ایک بے یار و مددگار زخمی مسلمان لڑکی خاندیش کی بستی مانڈو کی طرف جا رہے ہیں۔ یہ باپ کنور نارنگ سنگھ اوجینی اور بیٹا کنور بکرم نارنگ سنگھ اوجینی، غربت زدہ، مفلوک الحال اور نحیف و نزار ہونے کے باوجود بہادر اور ساونت طبیعتوں کے مالک ہیں، لڑکی گو کے ہے زخمی لیکن وہ بھی بہادر اور گھڑ سواری سے نیزہ زنی تک سب جانتی ہے۔ زمانہ شیر شاہ سوری کا ہے۔ اسد محمد خاں کا پسندیدہ زمانہ جس کی کہانیاں سنانے کو عموماََ ان کا جی کیا کرتا ہے، معلوم ہوتا ہے سوری خاندان کا عہد اور خاص طور پر شیر شاہ سوری کا زمانہ حکومت اسد محمد خان کے لیے ایک obsession کا درجہ حاصل کر چکا ہے کہ ان کی کئی کہانیاں شیر شاہ سوری کے عہد کو امن و امان اور عوامی بہبود کی علامت کے طور پر بیان کرتی ہیں۔