عالمتاب تشنہ کے اشعار

1-
یہ الگ بات کسی پیڑ سے منسوب نہیں
برگِ آوارہ سہی ہیں تو چمن میں ہم بھی

2-
نشاطِ گرمیِ بزمِ خیال دیکھیں گے
دیے بجھا کے ترے خد و خال دیکھیں گے

3-
ہر تماشے میں ترا حسنِ تماشا دیکھوں
چاند دیکھوں کہ ترا چاند سا چہرہ دیکھوں

4-
مرے یقیں کو بڑا بدگمان کر کے گیا
دعائے نیم شبی تیرا بے اثر جانا

5-
اِس دَورِ ناشناس میں ہم سے عرب نژاد
لب کھولنے لگے تو عجم کر دیے گئے

6-
مجھے تو اپنے خد و خال تک بھی یاد نہیں
دیارِ خود نگری آئینہ دکھا مجھ کو

7-
درِ خیال پہ دستک کا تھا وہی انداز
ہوائے یاد کا جھونکا رُلا گیا مجھ کو

8-
باندھنا روز اک قرار نیا
ہم کو قول و قرار میں رکھنا

کر کے تجدیدِ وعدہء فردا
عمر بھر انتظار میں رکھنا

عکسِ جاں کو سمیٹ کر تشنہؔ
دستِ آئینہ دار میں رکھنا

9-
تشنہؔ بسائیے دلِ خانہ خراب کو
ویرانیاں بھی ڈرتی ہیں خالی مکان سے

10-
میزانِ آرزو میں تجھے تولنے لگے
نظروں سے تیرا بندِ قبا کھولنے لگے

آزاد ہے وہی جو اسیری کے باوجود
اُڑنے کا نام آئے تو پَر تولنے لگے

11-
کھل جاؤں گا اِک عقدۂ آساں کی طرح میں
اے پیرہنِ زیست ترا بندِ قبا ہوں

12-
مجھے یہ دولتِ غم شوق سے عطا کر دے
مگر یہ شرط اسے درد آشنا کر دے

13-
آپ یہ شملہ و دستار سنبھالیں نہ بہت
عافیت جانیے، شانوں پہ اگر سَر رہ جائیں

14-
مری طرح سرِ محفل اُداس تھا وہ بھی
کسی نے حال جو پوچھا تو رو دیا وہ بھی

نیا نیا تھا ہمیں بھی جنوں پرستش کا 
بنا ہوا تھا سرِ انجمن خدا وہ بھی

15-
تشنہؔ تھا جو ہم دونوں کی راہگزر
اب وہ رستہ سُونا سُونا رہتا ہے

16-
تم کسی دن اگر آ جاؤ تو مجھ پر بھی کھلے
لوگ کہتے ہیں مرے گھر میں بھی دروازہ ہے

17-
چراغِ شعلہ سر ہوں اور ہوا میں
سرِ دیوارِ جاں رکھا ہوا ہوں

وصالِ یار کی خواہش میں اکثر
چراغِ شام سے پہلے جَلا ہوں

18-
اٹھی نہ کوئی قیامت خرامِ ناز کے بعد
کِھلی نہ کوئی کلی غنچۂ دہن کی طرح

ترا کہا تو بصد شوق مان لوں واعظ
بہشت گر نہ ہوئی اس کی انجمن کی طرح

19-
تھا مجھی تک وہ ستم میرے بعد
پھر کوئی دل نہ دکھایا ہوگا

میرا دل توڑ کے تشنہؔ اس کو
پیار پتھر پہ بھی آیا ہوگا

20-
ستم یہ کم تو نہیں ہے کہ اجنبی بن کر
مرے قریب سے گزرے تو مسکرانے لگے

21-
بھولے بسرے خواب سہانے یاد آئے
آج وہ سارے یار پرانے یاد آئے

جھانک کے دیکھا جب بھی دل کے داغوں میں
کیسے کیسے آئینہ خانے یاد آئے

22-
کیا ہو گئے چاند وہ تمہارے
اے شہرِ جمال کے دریچو

23-
سودا ہمارے سر میں تجھے چاہنے کا تھا
عہدِ شروعِ عشق بھی کس معرکے کا تھا

24-
نیرنگِ روزگار عجب چال چل گیا
منزل قریب آئی تو رَستہ بدل گیا

ہم خستہ گام، خوابِ سفر دیکھتے رہے
اور قافلہ حدودِ نظر سے نکل گیا

25-
وفا کے نام پہ لُوٹا جنہوں نے نقدِ حیات
خدا نہ کردہ یہی بُت اگر خدا ہوتے

تمام عمر یہ ارماں رہا ہمیں تشنہؔ
کہ اس کے ہونٹوں پہ ہم حرفِ مدعا ہوتے

۔۔