کلیات غزلیات امیر خسرو (چار جلدیں)

کلیات غزلیات امیر خسرو
علامہ شبلی نعمانی نے حضرت امیر خسروؔ کی جامعیت اور کمالات کا ذکر کرتے اگرچہ زیادہ تر اصناف سخن ہی کو مدِ نظر رکھا ہے، پھر بھی ان کا بیان اپنے اجمال و ابلاغ اور حقیقت و جامعیت کے لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ فرماتے ہیں: 

ہندوستان میں چھ سو سال برس سے آج تک، اس درجہ کا جامع کمالات نہیں پیدا ہوا اور سچ پوچھو تو اس قدر مختلف اور گونا گوں اوصاف کے جامع ایران و روم کی خاک نے بھی ہزاروں برس کی مدت میں دو چار ہی پیدا کیے ہوں گے۔ صرف ایک شاعری کو لو، تو ان کی جامعیت پر حیرت ہوتی ہے۔ فردوسیؔ، سعدیؔ، انوریؔ، حافظؔ، عرفیؔ، نظیریؔ بے شبہ اقلیم سخن کے جم و کے ہیں، لیکن ان کے حدودِ حکومت ایک اقلیم سے آگے نہیں بڑھتے، فردوسی مثنوی سے آگے نہیں بڑھ سکتا، سعدی قصیدہ کو ہاتھ نہیں لگا سکتے، انوری مثنوی اور غزل کو نہیں چھو سکتا، حافظ، عرفی، نظیری غزل کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتے، لیکن خسروؔ کی جہانگیری میں غزل، مثنوی، قصیدہ، رباعی سب کچھ داخل ہے اور چھوٹے چھوٹے خط ھائے سُخن یعنی تضمین، مستزاد اور صنائع بدائع کا تو شمار ہی نہیں۔