قیصر الجعفری کی غزلیں اور اشعار

قیصر الجعفری کی غزلیں اور اشعار

سرشکِ خونِ تمنا متاعِ دیدہء تر
ترے لئے ہے نگارِ حیات! رنج نہ کر
کبھی تو رنگِ حنا کے نصیب جاگیں گے
کبھی تو پھول کھلیں گے تری ہتھیلی پر

یہ بُعد بھی نگاہِ محبت پہ بار ہے
اتنے قریب آؤ کہ تم بھی نظر نہ آؤ

کتنے معماروں کا خونِ رگِ جاں کام آیا
تودہء خاک کے دیوارِ گراں ہونے تک
کتنے آئینے ہمیں توڑنے ہوں گے قیصرؔ
آبروئے رخِ صاحبِ نظراں ہونے تک

لے ترا ظرف یہی ہے تو چلا جاتا ہوں
میرے آنے سے بساطِ شبِ محفل نہ اُٹھا

ہم جو ڈوبے ہیں تو رونا تو بہت دُور رہا
کوئی ہنسنے کے لئے بھی لبِ ساحل نہ اُٹھا

جانِ من! گردشِ دوراں کو گذر جانے دو
کچھ دنوں اور محبت کے مسائل نہ اُٹھا

تبصرہ دردِ محبت پہ ہو کیوں کر قیصرؔ
اُن کی محفل میں کبھی مسئلہء دل نہ اُٹھا

بجھا کر اور روشن کر دیا ہے
ہوائیں ہم سے شرمندہ رہیں گی

لکھی جائے گی جب تاریخِ مقتل
مری گلیاں نمائندہ رہیں گی

حقیقت یوں بدل دی ہم نے قیصرؔ
کتابیں ہم سے شرمندہ رہیں گی

اے شام زخم زخم یہ تُو کیسے ہو گئی
خوشبو ترے بدن کی لہو، کیسے ہو گئی

قیصرؔ قبائے چاک پہ چھوڑو بھی تبصرہ
اتنی دریدہ تھی تو رفو، کیسے ہو گئی

میں بِک گیا تھا بعد میں بے صرفہ جان کر
دنیا مری دُکان پر لَوٹا گئی مجھے

تم ایک شام کے جھونکے سے بجھ گئے قیصرؔ
غبارِ درد کی بارش تو عمر بھر ہے میاں

ذہن میں کون سے آسیب کا ڈر باندھ لیا
تم نے پوچھا بھی نہیں رَختِ سفر باندھ لیا

بے مکانی کی بھی تہذیب ہوا کرتی ہے
ان پرندوں نے بھی ایک ایک شجر باندھ لیا

راستے میں کہیں گر جائے تو مجبوری ہے
میں نے دامانِ دریدہ میں ہنر باندھ لیا

کھلا ہے درد کے صحرا کا راستہ، چلیے
عصا سنبھالیے، اُٹھیے، برہنہ پا چلیے

سنا ہے جشنِ مکافات ہے سرِ مقتل
وہ آج بانٹنے بیٹھا ہے خوں بہا، چلیے

یہ زندگی بھی میاں! طے شدہ شہادت ہے
اٹھائیے! سر و سامانِ کربلا چلیے

ادھر سے ہو کے قیامت گزرنے والی ہے
حضور! چھوڑ کے تھوڑا سا راستہ، چلیے

سروں پہ آئے تھے ہم کشتیاں اٹھائے ہوئے
یہاں تو سارا سمندر اُتر گیا، چلیے

شکستِ دل پہ بہت دیر رو لیے قیصرؔ
سمیٹ لیجیے آنکھوں میں حادثہ چلیے

10۔
سانس لیتا ہوں تو زنجیر کھنک اٹھتی ہے
عمر جیسے کسی بے نام سزا میں گزری

11۔
قیصرؔ متاعِ دل کا خریدار کون ہے
بازار اجڑ گیا ہے دکانِ ہنر اُٹھا!

12۔
قیصر! بھری بہار سے روٹھے رہے بہت
اب فصل جا رہی ہے، لگا لو گلے میاں

13۔
میرے لیے کتنی دیر روئیں
یہ لوگ، جو چارہ گر ہیں میرے

یہ شام کہاں سے آ رہی ہے
مہکے ہوئے بام و دَر ہیں میرے

دریا نے بہت دیا ہے قیصرؔ
کشتی نہ سہی، بھنور ہیں میرے

14۔
جو بات ہوئی، ہو گئی، پاگل نہ بنو تم
اتنا بھی نہ روٹھو کہ منائے نہ منو تم

تھوڑی سی زمیں باندھ کے پردیس نکلتے
کاٹو گے کہاں رات مرے بے وطنو! تم

15۔
ہائے کیا لوگ کھو گئے قیصرؔ
اب غمِ رفتگاں لیے پھریے

16۔
مری مٹھی میں جگنو تک نہیں ہے
ترے آنگن میں ہیں مہتاب کتنے

جنہیں میں پھینک آیا راستے میں
وہ لمحے ہو گئے نایاب کتنے

مسلسل آ رہے ہیں گھر میں پتھر
پسِ دیوار ہیں احباب کتنے

17۔
ترے خلوصِ مسلسل سے جی نہ بھر جائے
کبھی کبھی نگہِ التفات کم کر دے

18۔
یہ بُعد ہے برسوں کے نہ ملنے کا نتیجہ
مل جاؤ کسی دن تو وہی تم ہو وہی ہم

19۔
پلکوں کا بوجھ پھینک کے کچھ دیر سو لیے
کتنا سکوں ملا جو سرِ شام رو لیے

کس نے کہا تھا راہ سے ہٹ کر سفر کرو
ہم نے خود اپنے پاؤں میں کانٹے چبھو لیے

خوابوں کے ہار گوندھنے بیٹھی تھی زندگی
کم پڑ گئے جو پھول تو کانٹے پرو لیے

20۔
پتوں کے ٹوٹنے کی صدا دیر تک چلی 
کل دشتِ جسم سو جاں میں ہوا دیر تک چلی

روشن رہیں نگارِ ہنر کی ہتھیلیاں
اپنی دکانِ رنگِ حِنا دیر تک چلی

ہم بند کر کے سو گئے خوشبو کی کھڑکیاں
سنتے ہیں رات، بادِ صبا دیر تک چلی

محفل میں چلی پڑی تھی ہمارے جنوں کی بات
پھر داستانِ چاکِ قبا دیر تک چلی

ساحل پہ آ کے ڈوب گئیں سب عقیدتیں
گہرے سمندروں میں دعا دیر تک چلی

21۔
انتظارِ صبا رہا برسوں
اِک دریچہ کھلا رہا برسوں

ایک لمحے کو پیار برسا تھا
اور میں بھیگتا رہا برسوں

بھولنا تھا اسے سو بھول گئے
پھر بھی کچھ یاد سا رہا برسو

تب کہیں جا کے اک غزل لکھی
میں اُسے سوچتا رہا برسوں

جلتی آنکھوں میں کوئی آس نہ تھی
بس یونہی رتجگا رہا برسوں

بجھ گئی شمع ایک جھونکے میں
اور دھواں گونجتا رہا برسوں

فاصلہ کم نہ ہو سکا قیصرؔ
آمنا سامنا رہا برسوں

22۔
ذرا سی بات کا اتنا ملال کیا رکھنا
گزر گیا مرے کوچے سے بے ملے تُو پھر

گلی کے سارے دریچے تو بند تھے قیصرؔ
کدھر سے آ گئی پچھلی رُتوں کی خوشبو پھر

23۔
جسم و جاں پر گزر گیا سب کچھ
کیا ہوا تھی بکھر گیا سب کچھ

تم ملو بھی تو اب نہ پہچانوں
ذہن و دل سے اُتر گیا سب کچھ

وقت برباد کر کے دیکھ لیا
وقت برباد کر گیا سب کچھ

اپنی زلفیں سنوار کر گویا
وہ یہ سمجھا سنور گیا سب کچھ

بہہ گئی میرے ساتھ بستی بھی
کون جانے کدھر گیا سب کچھ

دل دھڑکتا ہے آج بھی قیصرؔ
میں تو سمجھا تھا مر گیا سب کچھ

24۔
ترے ہاتھوں کا پتھر کہہ رہا ہے
کہ دل ٹوٹا نہیں توڑا گیا ہے

خفا مت ہو، ارے او بے مروت
مذاقاََ بے مروت کہہ دیا ہے

ابھی سے کیا ترے بارے میں سوچوں
کہ اس کے بعد برسوں سوچنا ہے

اٹھا دینا نہ پھر دیوار کوئی
بڑی مشکل سے دروازہ کھلا ہے

اسے کیسے کوئی بیگانہ کہہ دے
تعلق ہے، بھلے ٹوٹا ہوا ہے

ذرا سا واقعہ تھا دل کا بُجھنا
ہواؤں نے دھواں پھیلا دیا ہے

نہ جانے دل پہ کیا بیتی ہے قیصرؔ
یوں ہی روتے رہیں جی چاہتا ہے

25۔
میں قتلِ عام کا شاہد ہوں قیصرؔ
کہ بستی میں مرا اونچا مکاں ہے

26۔
تم آنکھ مُوند کے پی جاؤ زندگی قیصرؔ
کہ ایک گھونٹ میں ممکن ہے بے مزا نہ لگے