سرگوشیاں - میراجیؔ
سرگوشیاں
آج رات
میرا دل
چاہتا ہے تُو بھی میرے پاس ہو،
اور سوئیں ساتھ ساتھ۔
تیرے پیراہن مجھے
یاد آتے ہیں بہت،
آسماں بھی ساف ہے
اور ستارے اور چاند
بے خود و سرمست ہیں،
تازگی
ہے عیاں
ذرے ذرے سے زمیں کے، آہ لیکن بے بسی،
اور تنہائی مری؛
آج تُو آجا، مری ہمراز بن،
آ بھی جا؛
لے، گھٹائیں آ رہی ہیں بے نشاں رفتار سے
اور ان کالی گھٹاؤں میں ۃے سرمستی، خمار،
اور پانی کے ہیں تار
تُو بھی آ،
مل کے ہم
آج رات
گا ہی لیں چاہت کا گیت؟
جسم بھی تیرا مجھے مرغوب ہے۔
اور تیری ہر ادا
اور یہ چہرہ ترا
محبوب ہے
تیری یہ پیاری جوانی اک اچھوتی سی کلی
اور صورت سادی سادی سانولی،
اور تیرے بالوں میں یہ چمپا کے پھول،
اور نازک ہاتھ پر لپٹا ہوا گجرا ترا،
اور گلے میں ایک ہار،
آہ تیرے سب سنگار
کھینچتے ہیں دل کے تار
اور اک ہلکی سی گونج
اس فضا کی وسعتوں میں کھو گئی؛
آ مری ننھی پری!
آ مری من موہنی!
آج رات
چاہتا ہوں تو بھی میرے پاس ہو۔
۔۔۔
میرا جیؔ | کلیاتِ میراجیؔ سے انتخاب
(1935ء)
Tags:
میراجیؔ