Kulliyat-e-Saghar کلیات ساغر صدیقی by Saghar Siddiqui PDF
اکتوبر 1958ء میں پاکستان میں فوجی انقلاب میں محمد ایوب برسرِ اقتدار آ گئے اور تمام سیاسی پارٹیاں اور سیاست داں جن کی باہمی چپقلش اور رسہ کشی سے عوام تنگ آ چکے تھے۔ حرفِ غلط کی طرح فراموش کر دیے گئے۔ لوگ اس تبدیلی پر واقعی خوش تھے۔ ساغرؔ نے اسی جذبے کا اظہار ایک نظم میں کیا ہے۔ اس میں ایک مصرع تھا:
کیا ہے صبر جو ہم نے، ہمیں ایوب ملا
یہ نظم جرنیل محمد ایوب کی نظر سے بھی گزری یا گزاری گئی۔ اس کے بعد جو وہ لاہور آئے تو انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ میں اس شاعر سے ملنا چاہتا ہوں۔ جس نے یہ نظم لکھی تھی۔ اب کیا تھا پولیس اور خفیہ پولیس اور نوکر شاہی کا پورا عملہ حرکت میں آ گیا اور ساغرؔ کی تلاش ہونے لگی۔ لیکن صبح سے شام تک پوری کوشش کی باوجود وہ ہاتھ نہ لگا۔ اس کا کوئی ٹھور ٹھکانہ تو تھا نہیں جہاں سے وہ اسے پکڑ لاتے۔ پوچھ گچھ کرتے کرتے سرِ شام پولیس نے اسے پان والے کی دوکان کے سامنے کھڑے پایا۔ وہ پان والے سے کہہ رہا تھا کہ پان میں قوام زرا زیادہ ڈالنا۔ پولیس افسر کی باچھیں کھل گئیں کہ شکر ہے ظلِ سبحانی کے حکم کی تعمیل ہو گئی۔ انہوں نے قریب جا کر ساغرؔ سے کہا کہ آپ کو حضور صدر مملکت نے یاد فرمایا ہے۔ ساغرؔ نے کہا:
بابا ہم تو فقیروں کا صدر سے کیا کام! افسر نے اصرار کیا، ساغرؔ نے انکار کی رٹ نہ چھوڑی۔ افسر بےچارہ پریشان کرے تو کیا کرے کیونکہ وہ ساغرؔ کو گرفتار کر کے تو نہیں لے جا سکتا تھا کہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا تھا اور اسے کوئی ایسی ہدایت بھی نہیں ملی تھی، جرنیل صاحب تو محض اس سے ملنے کے خواہشمند تھے اور ادھر یہ "پگلا شاعر" یہ عزت افزائی قبول کرنے کو تیار نہ تھا۔ اب افسر نے جو مسلسل خوشامد سے کام لیا، تو ساغرؔ نے زچ ہو کر اس سے کہا:
ارے صاحب، مجھے گورنر ہاؤس میں جانے کی ضرورت نہیں۔ وہ مجھے کیا دیں گے، دو سو چار سو فقیروں کی قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے جب وہ اس پر بھی نہ ٹلا تو ساغرؔ نے گلوری کلے میں دبائی اور زمین پر پڑی ہوئی سگرٹ کی خالی ڈبیہ اٹھا کر اسے کھولا۔ جس میں اس کا اندر کا حصہ نمایاں ہو گیا۔ اتنے میں یہ تماشا دیکھنے کو ارد گرد خاصی بھیڑ جمع ہو گئی تھی۔ ساغرؔ نے کسی سے قلم مانگا اور اس کاغذ کے ٹکڑے پر یہ شعر لکھا؎
ہم سمجھتے ہیں ذوقِ سلطانی
یہ کھلونوں سے بہل جاتا ہے
اور وہ پولیس افسر کی طرف بڑھا کر کہا:
یہ صدر صاحب کو دے دینا، وہ سمجھ جائیں گے اوراپنی راہ چلا گیا۔
(اقتباس از دیوانِ ساغر صدیقی)
مرتبہ: فرحت صبا ص نمبر 25-26
Tags:
ساغر صدیقی