امجد اسلام امجد کی غزلیں اور اشعار

امجد اسلام امجد کی غزلیں اور اشعار

1-
 عشاق نہ پتھر نہ گدا کوئی نہیں ہے
اب شہر میں سایوں کے سوا کوئی نہیں ہے

بچھڑے ہوئے لوگوں کا پتہ کون بتائے
رستوں میں بجز بادِ بلا کوئی نہیں ہے

میں اپنی محبت میں گرفتا ہوا ہوں
اِس درد کی قسمت میں دَوا کوئی نہیں ہے

بے بار چلا اب کے برس موسمِ گل بھی
اُس پھول کے کھلنے کی اَدا کوئی نہیں ہے

ہر آنکھ میں افسوس نے جالے سے تنے ہیں
ماحول کے جادو سے رہا کوئی نہیں ہے

امجدؔ یہ مرا دل ہے کہ صحرائے بلا ہے
مدت سے یہاں آیا گیا کوئی نہیں ہے

2-
خزاں کے پھول کی صورت بکھر گیا کوئی
تجھے خبر نہ ہوئی اور مر گیا کوئی

دروں دریچوں میں خلقت دکھائی دیتی ہے
نواحِ سنگ میں آشفتہ سر گیا کوئی

ہوا نہ تھا پہ ہواؤں سا بے خبر تھا وہ
مجھے بٹھا کے سرِ رہ گزر، گیا کوئی

گریز میں وہ توجہ کا رنگ کیسا تھا
اِس اِک سوال سے دامن کو بھر گیا کوئی

اسے گماں ہی نہ تھا جیسے میرے ہونے کا
مِرے قریب سے یُوں بے خبر گیا کوئی

غمِ حیات کے رستے عجیب تھے امجدؔ
کسی نے رُک کے نہ دیکھا، کدھر گیا کوئی

3-
بام و دَر سے ہی بات کی جائے
رائیگاں کیوں یہ رات کی جائے

پیاس پھر بستیوں میں اُتری ہے
گفتگوئے فُرات کی جائے

پتھروں سے خطاب کیا کیجیے
آدمی ہوں تو بات کی جائے

یا تو ترتیب دیں سِتاروں کو
ختم یا کائنات کی جائے

آسماں دھم سے آ گرے نیچے
خاک اگر بے صفات کی جائے

صبح کی آس ہے تو شام کا غم
جیسے زنداں میں رات کی جائے

توڑ دیں جال چاند تاروں کے
کوئی شکلِ نجات کی جائے

دسترس کے حِصار سے آگے
سیرِ ناممکنات کی جائے

خاک کو خاک ہی میں مِلنا ہے
کیوں خلاؤں کی بات کی جائے

مُٹھیاں کھل رہی ہیں غنچوں کی
کچھ سبیلِ ثبات کی جائے

خاک کا سحر ٹوٹتا ہو جب
کیا بھری کائنات کی جائے!

4-
رُتوں کے ساتھ دِلوں کی وہ حالتیں بھی گئیں
ہَوا کے سنگ ہوا کی امانتیں بھی گئیں

ترے کہے ہوئے لفظوں کی راکھ کیا چھیڑیں
ہمارے اپنے قلم کی صداقتیں بھی گئیں

جو آئے جی میں پُکارو مجھے، مگر یے یُوں
کہ اس کے ساتھ ہی اس کی محبتیں بھی گئیں

عجیب موڑ پہ ٹھہرا ہے قافلہ دل کا
سکون ڈھونڈنے نکلے تھے وحشتیں بھی گئیں

یہ کیسی نیند میں ڈوبے ہیں آدمی امجدؔ
کہ ہار تھک کے گھروں سے قیامتیں بھی گئیں

5-
بستیوں میں اک صدائے بے صدا رہ جائے گی
بام و در پہ نقش تحریرِ ہوا رہ جائے گی

آنسوؤں کا رزق ہوں گی بے نتیجہ چاہتیں
خشک ہونٹوں پر لرزتی اِک دُعا رہ جائے گی

رُو برو منظر نہ ہوں تو آئنے کس کام کے
ہم نہیں ہوں گے تو دُنیا گردِ پا رہ جائے گی

خواب کے نشے میں جھکتی جائے گی چشمِ قمر
رات کی آنکھوں میں پھیلی التجا رہ جائے گی

بے ثمر پیروں کو چومیں گے صبا کے سبز لب
دیکھ لینا، یہ خزاں بے دست و پا رہ جائے گی

6-
کبھی رقصِ شامِ بہار میں اُسے دیکھتے
کبھی خواہشوں کے غبار میں اُسے دیکھتے

مگر ایک نجمِ سحر نُما، کہیں جاگتا
ترے ہجر کی شبِ تار میں اُسے دیکھتے

وہ تھا ایک عکسِ گریز پا، سو نہیں رُکا
کٹی عمر دشت و دیار میں اُسے دیکھتے

وہ جو بزم میں رہا بے خبر کوئی اور تھا
شبِ وصل میرے کنار میں اُسے دیکھتے

جو ازل کی لوح پہ نقش تھا، وہی عکس تھا
کبھی آپ قریہء دار میں اُسے دیکھتے

وہ جو کائنات کا نور تھا نہیں دور تھا
مگر اپنے قُرب و جوار میں اُسے دیکھتے

یہی آب جو، یہاں نغمہ خواں، یہی خوش بیاں
کسی شام کُوئے نگار میں اُسے دیکھتے

7-
جو سرِ دار آ نہیں سکتا
قرضِ ہستی چکا نہیں سکتا

آج جس آئنے میں دُھندلا ہو
عکسِ کل کا دِکھا نہیں سکتا

لہر ایسی چلی ہے بستی میں
کوئی بھی سر اُٹھا نہیں سکتا

ضبط سے یوں چٹخ رہے ہونٹ
آدمی مسکرا نہیں سکتا

زخمِ بے حُرمتی کی کیفیت
کوئی ہونٹوں پہ لا نہیں سکتا

اتنی گہرائی ہوئی ہے تاریکی
آدمی راہ پا نہیں سکتا

رات کے اس حَصار میں، مَیں تو
صبح کے گیت گا نہیں سکتا

کس قدر خواب ہیں نگاہوں میں
جن کو لفظوں میں لا نہیں سکتا

تم نہ دیکھو تمہارا دین ایمان
میں تو نظریں چُرا نہیں سکتا

دلِ سمندر بھی ہو اگر امجدؔ
پیاس غم کی بُجھا نہیں سکتا

8-
لہو کے پھول سرِ شاخِ انتظار کھلے
یہ کس بہار کے غنچے، پسِ بہار کھلے

دِلوں سے گردِ مسافت ڈھلی تو آنکھوں میں
گلِ وصال کھلے اور بے شمار کھلے

خود اپنے سامنے بے بس ہے قوتِ تخلیق
کہ موجِ رنگ تو پتھر کے آر پار چلے

ہے جو بھی پھول وہ فردِ حساب جیسا ہے
گئی رُتوں میں جو بوئے تھے اَب کی بار کھلے

ہوا کچھ ایسی چلی ہے سوادِ ہجراں میں
خزاں کے صحن میں جیسے گلِ بہار کھلے

9-
پسپا ہوئی سپاہ تو پرچم بھی ہم ہی تھے
حیرت کی بات یہ ہے کہ برہم بھی ہم ہی تھے

گرنے لگے جو سوکھ کے پتے تو یہ کھلا
گلشن تھے ہم جو آپ تو موسم بھی ہم ہی تھے

ہم ہی تھے تیرے وصل سے محروم عمر بھر
لیکن تیرے جمال کے محرم بھی ہم ہی تھے

منزل کی بے رُخی کے گلہ مند تھے ہمیں
ہر راستے میں سنگِ مجسم بھی ہم ہی تھے

اپنی ہی آستیں میں تھا خنجر چھپا ہوا
امجدؔ ہر ایک زخم کا مرہم بھی ہم ہی تھے

10-
شہد کہیں گے سَم کو بھی
جینا تو ہے ہم کو بھی

تجھ بن جلتے دیکھا ہے
پھولوں کے موسم کو بھی

بازاروں میں لے آئے
لوگ تو دل کے غم کو بھی

مہلت آنکھ جھپکنے کی
منظر کو بھی، ہم کو بھی

صدیوں پیچھے بھاگے گا
ٹھہرا جو اِک دم کو بھی

قاصد کر کے دیکھیں گے
اب کے چشمِ نم کو بھی

کون یہ پیاسا گزرا ہے؟
توڑ کے جامِ جَم کو بھی

مولا! تیری دنیا میں
چین ملے گا ہم کو بھی

امجدؔ اُونچا رکھیں گے
جلے ہوئے پرچم کو بھی

11-
بانجھ اِرادہ اور کوئی!
جھوٹا وعدہ اور کوئی!

ہم جیسا کیا دیکھا ہے!
تم نے سادہ اور کوئی

دل میں سارا کھوٹ ہی کھوٹ
تن پہ لبادہ اور کوئی

دیر و حرم تو چھان لیے
دیکھیں جادہ اور کوئی

دل میں اب کیوں رہتا ے
تم سے زیادہ اور کوئی

نکلے تھے ہم اپنے گھر سے
کر کے ارادہ اور کوئی

آخر کس امید پہ مانگیں
امجدؔ وعدہ اور کوئی!

12-
ہم تھے، ہمارے ساتھ کوئی تیسرا نہ تھا
ایسا حسین دن کہیں دیکھا سنا نہ تھا

آنکھوں میں اس کی تَیر رہے تھے حیا کے رنگ
پلکیں اُٹھا کے میری طرف دیکھتا نہ تھا

کچھ ایسے اُس کی جھیل سی آنکھیں تھیں ہر طرف
ہم کو سوائے ڈوبنے کے راستہ نہ تھا

ہاتھوں میں دیر تک کوئی خوشبو بسی رہی
دروازہء چمن تھا وہ بندِ قبا نہ تھا

اس کے تو انگ انگ میں جلنے لگے دیے
جادُو ہے میرے ہاتھ میں، مجھ کو پتا نہ تھا

اُس کے بدن کی لَو سے تھی کمرے میں روشنی
کھڑکی میں چاند، طاق میں کوئی دِیا نہ تھا

کل رات وہ نگار ہوا ایسا ملتفت
عکسوں کے درمیان، کوئی آئنہ نہ تھا

رویا کچھ اس طرح سے مرے شانے سے لگ کے وہ
ایسے لگا کہ جیسے کبھی بے وفا نہ تھا

ہے عشق ایک روگ، محبت عذاب ہے
اِک روز یہ خراب کریں گے، کہا نہ تھا!

امجدؔ وہاں پہ حد کوئی رہتی بھی کس طرح
رُکنے کو کہہ رہا تھا مگر روکتا نہ تھا

13-
ایک احساسِ دل کشا سے ہی
کھل اٹھا دل تری صدا سے ہی

مدعا حرفِ نارسائی کو
مل گیا عرضِ مدعا سے ہی

شاخ در شاخ زندگی جاگی
موسمِ سبز کی ہوا سے ہی

کس قدر سلسلے نکل آئے
لرزشِ چشمِ نیم وا سے ہی

پھول سے، رُت سے، باغباں سے نہیں
اپنا شکوہ تو ہے صبا سے ہی

رسم یہ حق پہ جان دینے کی
ہم نے سیکھی ہے کربلا سے ہی

خود جیو، دوسروں کو جینے دو
اپنی عادت ہے یہ سدا سےہی

ہنر اور مرتبہ نہیں مخصوص
جُبہ و خلعت و قبا سے ہی

کتنے ہی بے جہت کیوں نہ ہو جائیں
اپنا رشتہ تو ہے خدا سے ہی

سینکڑوں بار مل چکے ہوتے
آپ ملتے اگر دعا سے ہی

درد کی آبرو نہیں رہتی
نیتِ حرفِ التجا سے ہی

وہ دوراہا بھی آ گیا امجدؔ
جس کا دھڑکا تھا ابتدا سے ہی

14-
اشک آنکھوں میں آئے جاتے ہیں
پھر بھی ہم مسکرائے جاتے ہیں

دشتِ بے سائباں میں، ہم تیری
یاد کے سائے سائے جاتے ہیں

کوئی سنتا نہیں کسی کی بات
اپنی اپنی سنائے جاتے ہیں

قصرِ شاہی سے کب رُکے وہ سوال
جو سڑک پر اُٹھائے جاتے ہیں

ایسی جھکتی ہیں مہرباں آنکھیں
جیسے بادل سے چھائے جاتے ہیں

نہ سہی، زور گر ہوا پہ نہیں
ہم دیا تو جلائے جاتے ہیں

راستہ صاف ہو نہ ہو لیکن
ہم تو پتھر ہٹائے جاتے ہیں

ہم سناتے ہیں حالِ دل اپنا
اور وہ مسکرائے جاتے ہیں

پردے میں ایک مسکراہٹ کے
کتنے آنسو چھپائے جاتے ہیں

کون آیا ہے رو برو امجدؔ
آئنے جگمگائے جاتے ہیں